اہم ترینگلگت بلتستان

کم عمری کی شادی سے متعلق بل گلگت بلتستان اسمبلی سے جلد منظور کروا دیں گے، صوبائی وزیر تعلیم

گلگت (نمائندہ خصوصی) صوبائی وزیر تعلیم گلگت بلتستان غلام شہزاد آغا نے کہا ہے کی گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادیوں سے متعلق اعداد و شمار بہت حیران کن ہیں جلد تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اعلیٰ سطحی مشاورت کے بعد کم عمری میں شادی سے متعلق بل گلگت بلتستان اسمبلی سے منظور کروا دیں گ

ے۔انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان، گلگت بلتستان چپٹر کے منعقدہ سمینار”گلگت میں کم عمری کی شادیوں کا بڑھتاہوا روجحان” سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کم عمری کی شادی سے نمٹنے کیلیے کمیونٹی کی بنیاد پر مداخلتیں بھی بہت اہم ہیں۔ کم عمری کی شادی کے خاتمے اور لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کے پیغامات کو فروغ دینے کیلئے مذہبی اور کمیونٹی رہنماؤں کو شامل کرنا سماجی اصولوں اور طرز عمل کو تبدیل کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔

غلام شہزاد آغانے مزید کہا کم عمری میں شادی کا عمل بچوں کی زندگی کے تمام مراحل کو پیچیدہ بنادیتا ہے۔ صحت کے ساتھ کمر عمری کا حمل زندگی کیلیے خطرناک ہوتا ہے۔ کم عمری کی شادیوں سے مسلسل دباؤ اور ذہنی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، جس سے بہت سارے ذہنی مسائل جنم لیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا لڑکیوں کی کم عمری کی شادی انہیں صلاحیتوں سے محروم کردیتی ہے۔

اکثر گھروں میں ان بچیوں کو ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، چھوٹی عمر ہونے کے باعث وہ خود کو محفوظ نہیں کرسکتیں۔ جن خاندانوں میں بچی کو بھیجا جاتا ہے وہ بہت ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں،گلگت بلتستان میں اس طرح کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ گلگت میں پرانی روایات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا لوگ ابھی تک پرانی راویات پرعمل کررہے ہیں، لوگوں تک معلومات درست طریقے سے نہیں پہنچتیں، عوامی لاعلمی کے علاوہ جو ادارے ان قوانین پر عمل کرواتے ہیں، انہیں خود کم عمری کی شادیوں کے قانون کے حوالے سے زیادہ علم نہیں ہوتا، جس کے باعث دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کو ثقافتی و روایتی سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

صوبائی وزیر تعلیم نے کہا جلد قانون سازی کے ذریعے اس مسلے کی روک تھا م کے لیے موثر اقدامات اتھائیں گے۔ انھوں انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان، گلگت بلتستان چپٹر کے ممبر اسرار الدین کی خلدمات کو سراہتے ہوئے کہا گلگت بلتستان میں ایچ آر ایس پی اہم کردار ہے ان کے ساتھ میں مل کر علاقے کی محرومیوں کے لیے آواز اٹھائیں گے۔

اس موقعے پرکواڈنیٹر ہیومن رائٹس کیمشن آف پاکستان اسرارالدین نے کہا کم عمری کی شادی ملکی سطح پرغربت اور تعلیم کی کمی سے جڑا ایک خطرناک رجحان نظر آتا ہے، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کردی جاتی ہے۔جب کی گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان خطرناک حد تک برھ رہا ہے جن کی تازہ مثالیں حالیہ واقعات ہیں۔

انھوں نے کہا کم عمری کی شادی کے رواج کی جڑیں ثقافتی اور روایتی اصولوں میں گڑی ہیں، جو غربت، تعلیم کی کمی، اور لڑکیوں کی صحت اور بہبود پر کم عمری کی شادی کے منفی اثرات کے بارے میں محدود آگاہی کی وجہ سے قائم ہیں۔پرامن اور فلاحی معاشرے کے قیام کیلیے حکومتی سطح پر قاوانین بنانا اور اس پر عملدرامد کروانا وقت کا تقاضہ ہے اس کے لیے سب کو مل کرکام کرنا ہوگا تاکہ معاشرے میں اس کے منفی اثرات کم ہوسکیں۔

پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے یاسمین کریم، جبینن اور دوسرے شرکا نے اس بات پر زور دیا کم عمری میں شادی کے خلاف قانوں کو جلد گلگت بلتستان اسمبلی سے پاس کرواکر اس پر عملدرامد کروایا ئے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button