آج کے کالمزاہم ترینگلگت بلتستان
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: (حصہ ششم) عمرانی معاہدے کی تشکیل قدیم
عزیز علی داد
ہمارے پچھلے مضامین کے متعلق قارئین کی طرف سے مختلف مگر اہم آرا سامنے آئیں۔ پہلی رائے ہمارے لکھاری دوست اشفاق احمد ایڈوکیٹ کی طرف سے آئی۔ ان کی رائے یہ کہ گلگت بلتستان میں عمرانی معاہدے کے متعلق تجزیہ اختصار کی وجہ سے اس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ نہیں ہوسکا۔ عمرانی معاہدے کو زیادہ تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور قاری کا کہنا ہے کہ ان قسطوں کے درمیان وقفہ کے دورانیہ کو بڑھایا جائے۔ پہلی قسط کے کچھ دنوں کے اندر دوسری قسط کی آمد سے تجزیے اور تنقیدی جانچ پڑتال کے لیے درکار وقت دستیاب نہیں ہوتا ہے۔ تیسرا نقطہ امریکہ میں زیر تعیلم گلگت بلتستان سے پی ایچ ڈی کے سکالر شاہ زمان نے ابن خلدون تصور عصبیت اور گلگت بلتستان کی قبائلی نظام کے درمیان ممکنہ مطابقت یا غیر مطابقت کے متعلق اٹھایا ہے۔ آج کے مضمون کو ہم نے ان تین آرا کو مدنظر رکھ کر ترتیب دینے کی کوشش ہوگی۔ اب تک میں نے ان مضامین کو اکیڈیمک بنانے کی بجائے عام فہم رکھا تھا کیونکہ اس مضامین کے قارئین گلگت بلتستان کے عام لوگ اور طالب علم ہی ہیں ناکہ اکیڈیمیا کا پس منظر رکھنے والے۔ چونکہ ایک نکتہ ایک اکیڈمک شخصیت کی طرف سے آیا تھا، اس لئے ایک آدھ جگہ ہلکا سا اکیڈیمک حوالہ دینے کی جسارت کرونگا۔
گلگت بلتستان میں جب خود فراموشی کی بات ہوتی ہے تو عصر حاضر کے ساتھ ساتھ ہماری تاریخ سے بھی فراموشی مراد ہے۔ اسی لئے ہمیں اس چیز کا بالکل ادراک نہیں ہے کہ ہمارے سماج کے تار و پود کا کس تناظر میں ارتقا ہوا۔ دوسرے الفاظ میں ہم اپنے ہی سماج میں عمرانی معاہدے کی ارتقا سے نابلد ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید تعلیم، انتظامی رسوم و طریقہ کار اور دیگر ذرائع سے گلگت بلتستان میں مروج نظام کو ایک عمرانی معاہدہ کے طور پر ہمارے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے۔ یہ عمرانی معاہدہ نہیں بلکہ ایک مغالطہ ہے، جس میں نہ صرف ہمارا سماج مبتلا ہے بلکہ سماج و نظام کو اسی مغالطے کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ ان مضامین کا مقصد ان مغالطوں کو چاک کرنا ہے تاکہ تاریخ کے مکدر آئینے میں اپنے آپ کو واضع طور پر دیکھ سکیں۔
جہاں تک گلگت بلتستان میں عمرانی معاہدے کا معاملہ ہے، اس کو زیر بحث لانے سے پہلے اس کے تصور، خدوخال اور علاقے کے معروضی حالات کو بیان کرنے کے لیے علم سیاسیات کے اس تصور کا گلگت بلتستان کے سماجی تناظر سے مطابقت پر بات کرتے ہیں۔ عمرانی معاہدے کے تصور جدید علم سیاسیات میں ایک بنیادی تصور کے طور پر لیا جاتا ہے۔ گو کہ اس کی تشریح و تاؤیل مغربی فلسفے کے تناظر میں زیادہ ہوئی، مگر دیگر انسانی سماجوں میں بھی اس تمام خدوخال موجود تھے۔ مشرق میں ابن خلدون کی عمرانیات اس عمرانی معاہدے پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ ابن خلدون کا عصبیت کا تصور عربوں کے سماج میں اس خاصیت کی تلاش یا نشاندھی کرنے کی ایک شاندار مثال ہے جس کہ ذریعے سماج کے متفرق گروہوں کو ایک شناخت میں پرویا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہوتا ہے جو سماج میں جڑت کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ ہم گلگت بلتستان میں اس بنیادی عنصر کی تلاش کرینگے جو متفرق افراد و مفادات کو یکجا کرکے ایک سماج کی تشکیل کرتا اور شناخت عطا کرتا ہے۔ شناخت یا قوم ایک تصور کے اردگرد ہی بنا ہوتا ہے۔ بینٹکٹ اینڈرسن جدید قومیت کو ایک تصوراتی کمیونٹی کا نام دیتا ہے کیونکہ ایک تصور کی بنا پر ہی کچھ لوگ کچھ افراد کو اپنا اور دیگر کو غیر کہتے ہیں۔ یہ بہت حد تک معقول دعویٰ ہے. مثال کے طور پر یہ لازمی نہیں کہ ہر بلتی ایک دوسرے کو ذاتی طور پہ جانتا ہو، مگر یہ بلتی یول کا تصور ہی ہے جو متفرق اور ایک دوسرے سے انجان لوگوں ایک شناخت کے اندر سمو دیتا ہے۔
یہاں پر یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ علم سیاسیات میں عمرانی معاہدہ کو ایک تمثیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے نا کہ تاریخی حقائق کی تلاش کے لئے۔ اس تمثیل کے ذریعے کوشش کی جاتی ہے کہ سماج اور اس سے وابستہ ادارے، روایات، خیالات اور انتظامات کے وجود میں آنے کی محرکات سمجھے جاسکیں۔ ہم سیاسیات کے اس نظری پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے عمرانی معاہدے کا گلگت بلتستان کے مقامی تاریخ کا تجزیہ کرینگے تاکہ ان تاریخی محرکات اور ضروریات کو تلاش کرسکیں جو عمرانی معاہدہ کی تشکیل کا باعث بنے۔ آج اس مضمون میں گلگت بلتستان میں عمرانی معاہدے کے ابتدائی دور میں ارتقا اور اس کے سماجی ساخت پر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
جب ہم گلگت بلتستان میں عمرانی معاہدے کی بات کرتے ہیں یہ بات یاد رکھنا لازمی ہے کہ اس کے خدوخال صرف انسانی سوچ ہی نے نہیں، بلکہ علاقے کے جغرافیہ نے بھی متعین کئے ہیں۔ چونکہ یہاں کا جغرافیہ سنگلاخ و برفیلے پہاڑوں پہاڑوں اور سخت موسمی حالات پر مبنی ہے، اس لئے یہاں کے باسیوں کو ایک ایسا نظام بنانے کی ضرورت پیش آئی جو انھیں بیرونی مشکلات کے ساتھ برد آزما ہونے کے قابل بنا سکے۔ معروضی مشکلات لوگوں کے ہر کام اور تصور سے وابستہ تھا۔ اب بھی ہنزہ کے باسیوں کے مصائب کو بیان کرنے کے لئے مقبول عام محاورہ “بروشووے ابشاشنگ (بروشو لوگوں کے مصائب)” مستعمل ہے۔ عمرانی معاہدے کے سلسلے میں جو بات یاد رکھنی ہے وہ یہ کہ وہ ابدی طور پر یکساں نہیں رہتا۔ معاشرے کے معاشی پہلووں اور سماجی تبدیلیوں کے زیر اثر اس کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ آج جب ہم گلگت بلتستان میں روایتی قبائلی نظام یا میری/راجگی نظام کی بات کرتے ہیں تو ہم اس سماج کی بات کرتے ہیں جو زراعت کی پیدا کردہ ہے۔ قبل از زراعت اور عہد قدیم میں گلگت بلتستان کے بیشتر مکین شکار اور گلہ بانی سے وابستہ تھے۔ اسی لئے ہمیں پتھروں پہ بنائے گئے نقوش میں مارخور اور دیگر جانور نظر آتے ہیں مگر زراعت سے متعلق کم شبیہیں کم ملتی ہیں۔
گلگت بلتستان کے تاریخی قبائلی نظام کی بنیاد شکار و گلہ بانی کے عہد کے دور میں بنتی نظر آتی ہیں۔ علم بشریات کی رو سے انسانی ارتقا کے ابتدائی دور میں انسان نے شکار کرنا سیکھا تھا۔ بڑے شکار کے لئے انسان کو بڑے انسانی جتھوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح بھیڑئے جتھے کی صورت میں شکار کرتے ہیں۔ اسی بنیادی جبلت کی بنیاد پر ہی انسان نے اپنی سماجی منصوبہ بندی کرکے عمرانی معاہدے کی عمارت تعمیر کی۔ نتیجتاً انسان باہمی تعاون سے خوراک کا انتظام کے ساتھ ساتھ جنگی حیات کے خطرے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوا۔ یوں کسی ایک مقام پر موجود یہ جھتے آہستہ آہستہ قبائل بن گئے۔ گلگت بلتستان میں قبائلی نظام کی تشکیل میں اس شکاریات اور گلہ بانی کے دور کی محرکات اور ضروریات کا کلیدی کردار رہا ہے۔ انسان زندگی کی طویل تاریخ میں ویسے بھی زراعت حالیہ ایجاد ہے۔ گلگت بلتستان میں تو زراعت کو عام ہوئے کچھ ہی صدیاں ہوئی ہے۔ ورنہ پرانے کہانیوں میں زراعت سے وابستہ اوزار و واقعات کا کثرت سے ذکر ہوتا۔ شری بدت کے قصے میں یہ بالکل عیاں ہے کہ اس زمانے یعنی آٹھویں صدی میں ٹیکس جمع کیا جاتا تھا مگر زراعت سے وابستہ کسی چیز یا زرعی ٹیکس کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ شری بدت کی کہانی میں ٹیکس گندم کی صورت میں وصول نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر گھر سے کوئی جانور ٹیکس کے طور پہ اٹھا لیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ہمارے اردگرد کے ماحول کا خیال رکھنے کے متعلق جس طرح کی کے کاموں سے منع ذکر کیا گیا ہے وہاں پر ہمیں شکاریات و گلہ بانی کے سماج کے اخلاقیات اور جذبات پر اثرات نظر آتے ہے۔ مقامی زبانوں میں مارخور کا مشہور نوحہ جس میں مارخور اور کے بچے کے درمیان مکالمہ دکھایا گیا ہے، سراسر شکار و گلہ بانی سے منسلک معاشرے کے عکاسی ہوتی ہے۔ سماجی اخلاقیات کی تمثیل ان جنگلی اور مقدس جانوروں کے ذریعے کی گئی ہے۔
گو کہ شکار اور گلہ بانی سے وابستہ روایات اور قانون سماج اور سماجی حافظے سے محو ہوگئے ہیں، مگر کچھ جگہوں میں اپنی بگڑی ہوئی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ شکار اور گلہ بانی کے قدیم دور کی باقیات اور ان سے مسلک روایات کو جرمن ہندوکش مہم کے دوران جرمن محقیقن نے 1955 میں گلگت اور اس سے معلقہ علاقوں میں ریکارڈ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گو کہ پرانے دیویوں اور دیومالائی کرداروں کو گلگت کے معاشرے میں بھلا دیا گیا ہے، تاہم ان سے وابستہ قدیم رسومات اور شامنزم کی باقیات اب بھی باقی ہیں۔دنیلزم یا شامنزم اور گلگت بلتستان کی کونیات میں پاکیزگی جسے مقامی الفاظ میں سجوکم کہا جاتا ہے، بنیادی تصور ہے۔ انسان شامن تب بنتا ہے جب وہ اپنے آپ کو انسانی آلائشوں سے پاک کرے۔ اسی طرح شکاری شکار کی دیوی مورکم سے اپنے شکار کرنے کی خوشنودی تب حاصل کر پاتا تھا جب وہ اپنے اندر سے آدم کی بو یا باقیات کو اپنے آپ سے دور کرنے کے لئے چیڑ کے پتوں میں دھونی میں دھوتا تھا۔ روایتی طور پر پاکیزگی سے وابستہ تصورات انسانی رشتوں، تعلقات کی نوعیت، سماجی رتبے کے ساتھ ساتھ گھر، قبائلی نظام اور انسانی آبادی کی ترتیب و تشکیل کو بھی متعین کرتے تھے۔ قبائلی نظام میں ہر شخص اپنے قبیلے کے دوسرے افراد کے ساتھ خون کے رشتے سے جڑا ہوا تھا۔ اسی لئے اپنے خون کا باہر کسی کے ہاتھوں بہتا ہوا نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ اسی لئے کسی قبیلے کے کسی ایک فرد کو خطرہ سارے قبیلے کے لئے خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ دشمی یا کننیئی کی رسم اسی تصور سے ماخوذ ہے۔ یہ تصور کہ رگوں میں ایک ہی خون دوڑتا ہے، متفرق افراد کو قبائلی جھتے کے کل میں سمونے کا ذریعہ فراہم کرتا تھا۔ قبیلے سے الگ رھ کر انسان یا اپنے مخالف گروہ یا جنگلی حیوانوں کا شکار ہوجاتا تھا۔ قبیلے کے بنیادی خصلتوں اور خوبیوں کو تب تک ہی محفوظ رکھا جاسکتا ہے، جب تک اس کے خون کو پاکیزہ رکھا جاتا تھا۔ اسی لئے ہر وہ چیز جو باہر سے قبیلے کے اندر آتی ہو، اس کو روکا جاتا تھا۔ اسی سوچ نے سماجی اقدار اور ثقافتی روایات کو جنم دیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قبائلی دور میں نسل کو خالص رکھنے کے لئے عورت کو قبیلے کے اندر ہی بیاہ کیا جاتا تھا۔ ایسا شخص جو قبیلے سے باہر کی عورت سے پیدا ہو ارغون یا مخلوط نسل کا تصور کیا جاتا تھا اور سماج میں ایسا انسان خالص نہیں رہتا تھا۔ جو اولاد مخلوط نسل سے ہو اس کو ارغون کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات ارغون کو ناجائز اولاد کے طور پر لیا جاتا ہے۔ مقامی راجوں میں ایسا بچہ جس میں شاہی خاندان کے خون میں باہر کی غیر شاہی عورت کی خون کی آمیزش ہو، وہ ولی عہد ہونے کا مستحق نہیں ہوتا تھا۔ پاکیزگی یا برف کی طرح ہوتی ہے یا آسمان کی طرح جو پریوں جیسی پاکیزہ مخلوقات کا آشیانہ اور گزرگاہ ہوتے ہیں۔ شاید اسی لئے ہنزہ اور علاقے کے دیگر شاہی خاندان اپنے آپ کو آسمان سے آئے ہوئے (عیشو) سمجھتے ہیں۔
خود کو پاکیزہ رکھنے کے لئے ایک پورا سماجی ڈھانچہ یا عمرانی نظام مرتب کیا گیا۔ شاید قبائلی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لئے خاندان یا قبیلے کی عورت سے ہی بچے پیدا کئے جاتے تھے ناکہ باہر کی غیر عورت سے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ تبت ہائے بلتستان و گلگت میں ایک عورت کا پانچ بھائیوں کو ایک ساتھ شوہر بنانے کی رسم اسی پاکیزگی پر مبنی عمرانی معاہدے کے تحت وجود میں آئی ہے جس نے سماج کی بنیادیں، وجود، اقدار اور رشتوں کو متعین کیا تھا۔ اس عمرانی معاہدے پر مبنی نظام، اقدار، سوچ اور ثقافتی روایات آج بھی ہماری زبان میں باقی ہیں۔ شینا میں چاچا کے لئے خاص لفظ نہیں ہے سوائے باپ کے جس کے ساتھ ایک سابقہ لگا کے پکارا جاتا ہے جیسا کہ بڑو مالو (بڑے ابو)، مجینو مالو (منجھلا باپ) چونو مالو (چھوٹا باپ) وغیرہ۔ لگتا ہے کہ شادی کا تصور زرعی دور کی پیداوار ہے۔ اس سے پہلی اس کا تصور نہیں تھا۔ اس رسم کی نشاندھی چھٹی صدی عیسوی میں گلگت سے گزرنے والے چینی بدھ بھکشووں نے بھی کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شادی کا ادارہ شکار اور گلہ بانی کے دور میں وجود نہیں رکھتا تھا۔ ان چینی سیاحوں میں سے ایک نے باقاعدہ لکھا ہے کہ درد لوگ اپنے بہو کے ساتھ بھی سوتے ہیں۔ آج بھی داردک لوگوں میں خونی رشتوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کے کیسزز سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح کارل یٹمار بلتستان کے ایک علاقے کی ملکہ کی کہانی کا ذکر کرتا ہے جو ہر خوبصورت نوجوان کو اپنا بنا لیتی تھی تاکہ وہ ایک خوبصورت لڑکی کو جنم دے سکے۔ لڑکا ہونے کی صورت میں اسے قتل کردیتی تھی کیونکہ وہ اپنی وارث بیٹی کو بنانا چاہتی تھی۔ لڑکی کی پیدائش اچھا شگون ہوتا تھا کیونکہ وہ ملکہ کی جانشین بن سکتی تھی۔ اس ملکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دفعہ ایک مہمان خوبصورت نوجوان پر فریفتہ ہوئیں اور اسے اس کے ساتھ رہنے کو کہا تو نوجوان نے بغیر شادی کے رہنے سے انکار کردیا۔ اس کے جواب نے ملکہ نے کہا کہ وہ شادی نہیں کرسکتی کیونکہ اس سے اس کی الوہی خاصیت ختم ہو جائیگی۔ ان باتوں سے یہ نظر آتا ہے کہ شادی جیسا عمرانی معاہدہ شکار اور گلہ بانی کے دور کا نہیں ہے بلکہ زرعی دور کی پیداوار ہے۔
شکار اور گلہ بانی کے دور میں شاہی اقتدار کے لئے لڑکی کی طلب زرعی دور کی اس پدر شاہی سے یکسر مختلف ہے جس میں نرینہ اولاد کو اقتدار سونپا جاتا تھا۔ شاہی خاندانوں میں ایک سے زیادہ نرینہ اولاد ہوں تو ایک کو چھوڈ کر باقی سب کو قتل کردیا جاتا تھا یا ان کو دور دراز کسی کے ہاتھ دیا جاتا تھا کہ شاہی تخت سے دور اس کی پرورش ہو۔ زرعی دور میں ایسی تاریخی کہانیاں ملتی ہیں جس میں نرینہ اولاد نا ہونے پر کسی شاہی خون کے تلاش کی گئی جو کہ قتل سے بچ چکا ہو یا گمنامی میں زندگی گزار رہا ہو۔ ہنزہ کی ایک کہانی اسی طرح ہے جہاں شاہی خاندان کے خون نا ہونے کی وجہ سے علاقے میں زمین بنجر ہوجاتی ہے اور قحط کی نوبت آجاتی ہے۔ اس مصیبت سے نکلنے کے لئے شاہی خاندان کے ایک بچے کو تلاش کیا جاتا ہے جس کو ایک درباری نے کسی دور وادی میں چھپایا تھا۔ اس کی آمد سے زمین فصل اگنے لگتی ہے اورآبادی کی افزائش کے لئے اس نوجوان شہزادے کو کسی بھی عورت سے اختلاط کی اجازت دی جاتی ہے یہاں پر زرعی دور میں شکار کے دور کا الفا میل کا تصور واضع طور پر نظر آتا ہے۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ چیز ظاہر ہوتی ہے کہ پاکیزگی یا خالصیت کے اردگرد ہی سارا سماجی، سماجی اور سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا تھا۔ حالصیت کا یہ تصور گلگت بلتستان کی کونیات میں بھی نظر آتا ہے، جہاں پہ انسان پر اثر انداز ہونے والی ساری دیویاں پاکیزہ ہوتی ہیں۔ اگر کوئی اس پاک یا سجی ہستی اور اس سے وابستہ چیزوں اور ذی حیات کو نجس کرنے کی کوشش کرتا تھا تو موکل دیویاں اس شخص کی زندگی کا خاتمہ کر دیتی تھی۔ اسی طرح شکار و گلہ بانی کے دور کا عمرانی معاہدہ اپنی خالص نسل کی افزائش، پرورش اور تحفظ کے لئے بنایا گیا تھا۔ چونکہ اس وقت شکار اور گلہ بانی ہی خوراک کے ذرائع تھے، اس لئے ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے دیویاں وجود میں آگئی جو اپنی ماہیت میں پاکیزہ تھیں۔ شینا کونیات و دیو مالا میں مورکم وہ دیوی ہے جو شکار اور جنگل کی دیوی ہے۔
گلگت بلتستان کی کونیات پر مبنی عمرانی معاہدے کی رو سے چراہ گاہوں کو پاک و پاکیزہ رکھنے کے خاص اصول وضع کئے گئے تھے، جس کی پاسداری کرنا لازمی تھا۔ اس کائناتی تصور میں چونکہ عورت اپنی ماہواری کی وجہ سے اردگرد کی جگہ اور لوگوں کو پلید کرتی ہے، اسی لئے عورت کو برف کے پہاڑ اور ان میں واقع چراگاہوں میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔ یہ چراگاہیں اور برف پاکیزہ پریوں اور دیویوں کے مسکن تھے، جہاں مارخور اور دیگر جنگلی حیات ان کے پالتو ریوڑ کے طور پر رہتے تھے۔ اس لئے ان کو ہر قسم کی ناپاکی سے محفوظ رکھا جاتا تھا۔ یہی رویہ عورت کا سماج کے اندر مقام اور برتاؤ کو بھی متعین کرتا تھا۔ اس عمرانی نظام میں عورت کو حیض کے وقت اپنے گھر اور قبیلے سے دور کرنا ہوتا تھا کیونکہ اس کی ناپاکی قبیلے کی بھوک اور ننگ کا باعث بن سکتی تھی۔ اس دور کے عمرانی نظریات کا اثر آج بھی گلگت بلتستان کے سماج میں دیکھا جاسکتا ہے۔ 1955 میں کے آسٹرو جرمن مہم میں مقامی روایات کو مرتب کیا گیا جس نے بعد میں شکار اور گلہ بانی کے دور کی روایات کو زرعی دور میں پہچاننے میں بہت مدد ملتی ہے۔
اب ایسا نہیں کہ زراعت کے آنے سے یہ عمرانی معاہدہ سرے سے ہی مٹ گیا۔ یہ اپنی ٹوٹی پھوٹی صورت میں نئے عمرانی معاہدے میں بھی در آیا لیکن یہ ایک اور کلی تصور کے اندر عمل پزیر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زراعت کے متعارف ہونے کے ساتھ ساتھ اونچی اور نیچی ذات پات کا تقسم بھی اگیا۔ اس سے اگلی قسط میں ہم کوشش کرینگے کہ زراعت کے ساتھ گلگت بلتستان کے عمرانی معاہدے میں کونسی تبدیلیاں رونما ہوئی اور سماج اور معیشیت پر کون سے اثرات مرتب ہوئے۔ (جاری ہے).