
گلگت بلتستان اونچے اونچے پہاڑوں اورچوٹیوں میں گھرا ہوا خطہ ہے ان پہاڑوں اور چوٹیوں کی ساخت مختلف قسم کی ہے بعض سخت پتھرکے ہیں تو بعض پتھریلے ہیں بعض پہاڑ اور چوٹیاں بارش برداشت نہیں کر سکتیں اور بارشوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بنتی ہیں ان پہاڑوں میں دنیا میں پائے جانے والے تمام معدنیات موجود ہیں تا ہم بعض معدنیات کا تناسب زیادہ اور بعض معدنیات کا تناسب کم بتایا جاتا ہے۔ بہر حال کم وبیش تمام پہاڑوں میں معدنیات کی موجودگی کے رپورٹس موجود ہیں جبکہ بہت سارے پہاڑوں پر کان کنی کے ذریعے معدنیات نکالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گزشتہ منگل کے روز وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے پاکستان منزلز انویسٹمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے معدنی ذخائر کو فروخت کرکے پاکستان کے قرضے اتارنے اور ملک کو آئی ایم ایف سے چھٹکارا دلانے کی بات کی ہے جس پر گلگت بلتستان کے بعض حلقوں میں اس بات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور بعض جذباتی اور نا سمجھ لوگ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے خلاف انتہائی گندہ اور گھٹیا زبان استعمال کر رہے ہیں۔یہ گلگت بلتستان کا المیہ ہے کہ یہاں کسی معاملے کو سمجھنے یا کسی فیصلے کی خد و خال جانے بغیر سوشل میڈیا کے گند میں غوطہ خوری کے شوقین افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ اپنے باغ، کھیت اور صحن میں موجود کسی بڑے پتھر کو ہٹانے کی صلاحیت نہ رکھنے والے پہاڑوں پر موجود معدنیات کو از خود نکالنے، کسی سرمایہ کار کو موقع نہ دینے کیلئے سینہ تان لیتا ہے اور اپنی حیثیت اور صلاحیت نہیں دیکھتا۔
گلگت بلتستان کے پہاڑ صدیوں سے کھڑے ہیں اور صدیوں سے ہی ان میں معدنیات کے ذخائر موجود ہیں ہمارے آباؤ اجداد انہیں معدنیات کے قصے کہانیوں میں چل بسے اور ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکے انکو تو صحیح سے معلوم تک نہیں ہو سکا کہ ان پہاڑوں میں کونسی معدنیات ہیں اور ہم ان سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اب ہمارے جذباتی نوجوان اور بعض مفاد پرست لوگ جو مستقبل میں اس شعبے میں گل کھلانا چاہتے ہیں وہ قوم کو ایسے گمراہ کر رہے ہیں جیسے غیر ملکی سرمایہ کار پہاڑ ہی اٹھا کر لے جائینگے۔
پہاڑ، دیار، قدرتی جنگلات،ہوا،پانی مٹی اور پتھر قدرتی وسائل ہیں اگر ہم ان سے بروقت فائدہ اٹھا سکے تو یہ ہمارے لئے سود مند ہوں گے اگر ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکے سمجھ لیں یہ وسائل ضائع ہیں۔اب ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کے دو طریقے ہیں
چونکہ یہاں کی معدنیات کے حوالے سے بعض حلقوں میں تشویش پایا جاتا ہے اسلئے معدنیات کی ہی بات کرینگے، معدنیات سے ہم یعنی گلگت بلتستان کے عوام دو طریقوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں پہلا طریقہ کار تو یہ ہے کہ ہم مطلب جو اس شعبے میں مہارت رکھتے ہیں اور جن کے پاس جدید مشنری اور ٹیکنالوجی ہے وہ جدید طریقوں سے ان معدنیات کو نکالنے کے کام کا آغاز کریں اور اپنے ساتھ ان علاقوں کے نوجوانوں کو بھی شامل کریں جہاں معدنیات کا کام کیا جا رہا ہے کسی کے پاس اتنے وسائل ہیں ٹیکنالوجی ہے مشنری ہے اور افرادی قوت ہے تو بسم اللہ کرے اور اپنے لوگوں کو فائددہ پہنچائے اور اگر نہیں تو ہمیں معدنیات نکالنے کے لئے سرمایہ کاروں کی ضرورت پڑے گی وہ ملکی ہوں غیر ملکی یا کوئی اور۔۔۔
ہمیں معدنیات نکالنے کے عمل کی مخالفت کرنے کی بجائے گلگت بلتستان کے سیاسی، مذہبی، سماجی رہنما، بیوروکریٹس مل کر ایسیا لائحہ عمل طے کریں یا ان معدنیات کے عوض اپے اور آنے والی نسلوں کیلئے ایسے وسائل کا ڈیمانڈ کریں جس سے ہماری زندگی اور ہماری آنے والی نسلوں کیلئے فائدہ پہنچے، معدنیات کو پہاڑوں میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں یہ انڈے یا بچے نہیں دیتے کہ ہم دیر سے اٹھائینگے تو زیادہ فائدہ ہوگا۔معدنیات کو پہاڑوں میں رکھ کر یہ کہنا کہ ہم خزانے پر بیٹھے ہیں بیوقوفی کے سواء کچھ نہیں۔پہاڑوں میں چھپے ان خزانوں کی بدولت ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو صحت، تعلیم، بجلی، پانی، انٹرنیٹ، روزگار سمیت دیگر بنیادی ضروریات مل سکتی ہیں اور ہماری معیشت مضبوظ ہو سکتی ہے تو ہمیں وقت ضائع کئے بغیر ان سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ان مقاصد کے حصول کیلئے ہمیں یکجا ہو کر حکومت سے یہ مطالبہ اور تحریری معاہدہ کرنا چاہئے اور گلگت بلتستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر حکومت پاکستان کے سامنے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ رکھنا چاہئے ہمیں ہمارامعقول حصہ دینے کے بعد پاکستان کے حکمران اس سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی آمدن سے قرضے اتارتی ہے بیرون ممالک جزیرے خریدتی ہے یا اپنے بیرون ممالک ہسپتالوں میں علاج پر خرچ کرتی ہے یہ انکی مرضی لیکن ہمیں اپنے جائز حق اور معقول حصے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔باقی پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں وزیر اعظم کی تقریر کے خلاف فلاسفیاں جھاڑنے والوں کو منہ توڑ جواب دیکر انکو خاموش کرانے کی ضرورت ہے۔