آج کے کالمزاہم ترینگلگت بلتستان

غور و فکر کی معدومیت

تحریر: عزیز علی داد

جس طرح زندگی کے ہر پہلو میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اسی طرح ہمارا دنیا کو دیکھنے کا طریقہ کار اور نقطہ نظر بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ انسانی سماج اور تاریخ تبدیلی اور جمود کی حالتوں کی جدلیات سے آگے بڑھتے ہیں۔ جس دور میں آج ہم رھ رہے ہیں، اس کو انفارمیشن اور ڈیجیٹل کا دور کہا جاتا ہے۔ اس میں معلومات اور اشیا با آسانی میسر ہوتی ہے اور ہر طرف نظر آتی ہے۔ اس لئے آج کے دور میں کسی بھی چیز کے میسر ہونے کے لئے لمحہ موجود میں ہمہ وقت ہونا بھی ضروری ہوتا ہیں۔ اگر کوئی شے مادی وجود رکھتا ہے مگر منظر سے اوجھل ہے تو وجود نہیں رکھتا ہے۔ صارفیت کی تہذیب میں لمحہ موجود میں موجودگی ہی کسی بھی چیز کی وجود، افادیت اور مصرف کی ضامن ہوتی ہے۔ اس لمحہ موجود کو نظر نہ آنے والی الگورتھم کی ایک مشین برقرار رکھتی ہے۔
اسی طرح انفارمیشن اور میڈیا ٹیکنالوجی کے زیر اثر ہماری سوچ، علم کے ذرائع اور علمیات کی بنیادیں یکسر اتنی تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں کہ دس سال پہلے کا علم آج متروک ہوجاتا ہے ۔ یہ تغیر بنیادی طور پر علم کے ذرائع اور شرچشموں میں تبدیلی کی وجہ سے رونما ہوتی ہے۔ اس تیز رفتار معدومیت کو عالمگیریت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے بڑھا دیا ہے۔ جدید دور کے آغاز میں انسانی سماجوں اور ریاستوں نے اپنے ہاں علوم کو ان بنیادوں پہ ڈھالنے کی کوشش کی جن کو پرنٹنگ پریس کے گنٹن برگ انقلاب نے فراہم کی تھیں۔ اسی لیے تعلیم اور علم کا سارا نظام اس کے اردگرد گھومتا تھا۔ امتحان میں شرکت کرنا، مقالہ لکھنا، مقالے کا سپروائزر، منطقی تسلسل، مرکزی خیال، نئی تھیوری، کریٹیکل سوچ، معلومات، ڈیٹا اور دعووں کا تقابل اور موازنہ کرنا، کیٹلاگ، یہ سب گٹن برگ انقلاب پر مبنی نظام علم اور علمیات کے مظاہر ہیں اسی لئے پرنٹنگ پریس کے نظام علمیات میں پہلے پڑھا جاتا تھا، پھر سوچا جاتا تھا اور اس کے بعد لکھا جاتا تھا۔ آخر میں ان سب کے نتیجے میں بندہ بولنے کے قابل بن جاتا تھا۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں گٹن برگ کا یہ علمیاتی کلیہ الٹا ہوگیا ہے۔ اب پہلے بولا جاتا ہے اس کے بعد اگر موقع ملا تو بولے ہوئے جملوں کو دھرا کے لکھا جاتا ہے۔ اور بہت ہی کم اس سطح سے اٹھ کر پڑھنے اور سوچنے کی طرف جاتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے ملک میں اب سوچ کے بغیر بولا اور لکھا جاتا ہے۔ اب ہمارے ہاں بغیر سوچ کے بولنے والوں کو آزادی ہے اور سوچ کر بولنے والوں پر پابندی۔ تبھی تو شام کی ٹی وی کی گپ شپ صبح اخبار یا کسی بلاگ میں چھپی نظر آتی ہے اور کچھ عرصے بعد ان میں سے کچھ چیزیں کتاب کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں۔ اسی لئے تو پاکستان کے تجزیہ نگار اور کالم نگار ایک آدھ درجن جلدوں کے مصنف بن جاتے ہیں۔ ایک شخص جو ایسے ایکو سسٹم میں رہتا ہو جہاں پہ سوچنا کا وقت نہیں ہوتا کیونکہ ٹائم بولنے اور دکھانے کے لئے ہے، اس سے کسی ایک موضوع پر توجہ مرکوز کرکے کسی مقالے یا تصور کی توقع کرنا پتھر سے تیل نکالنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ توجہ لمحہ موجود سے نکال دیتا ہے اور چیزوں کو طویل نقطہ نظر اور وسیع تناظر میں دیکھنے کی ڈیمانڈ کرتا ہے۔ مگر لمحہ موجود سے غیر حاضری آپ کو سوفٹ ویئر کےم صفحوں سے مٹا دینے کا موجب بن سکتی ہے۔ یوں توجہ موجود رہنے تک مرکوز رہتی رہتی ہے۔ گٹن برگ اور ڈیجٹل دور میں ہماری توجہ کی صورتحال کو اس مثال سے سمجھئے۔ ایک کتاب کا صفعہ پڑھ کر پلٹنے میں آپ کو دس منٹ لگتے ہیں، جبکہ سکرول کرنے میں دو سکینڈ۔ یوں آج کے نوع بشر کی توجہ دو سیکنڈ کی رھ گئی ہے۔ جب توجہ چند سیکنڈوں تک محدود ہوگئی ہو تو کسی معاملے کی لامحدود علم و آگاہی کی توقع کرنا فضول ہے۔
اس جدید ڈیجیٹل دور میں چونکہ آپ کو بولنا ہوتا ہے یا دکھانا ہوتا ہے، اس لئے ہمارے اندر موجود دوسری چیزیں خود بخود کم ہوجاتی ہیں۔ مثلاً زیادہ بولنے کا مطلب کم سننا اور سوچنا ہے۔ بولتے سمے آپ لکھ نہیں سکتے۔ مرتکز توجہ یا فوکس سوچ میں غور و فکر آپ کا زیادہ تر وقت کھا جاتا ہے۔ تب جاکے سوچ کی بھول بھلیوں میں کہیں لکھنے کی کرن نظر آتی ہے۔ مرتکز سوچ کی مثال ہم مشہور آسٹرین فلسفی لوڈوگ ونگنسٹائن سے لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کیمبرج میں ان کا لیکچر کئی گھنٹوں تک محیط ہوتا تھا اور بعض اوقات تو وہ کلاس میں یہ کہہ کہ اپنی کرسی پہ دراز ہوکر سوچنے لگتا تھا کہ اس کے متلعق انھوں نے سوچا نہیں تو بات کیسے کرسکتا ہے۔ بعض اوقات ونگنسٹائن کے لیکچر کے دوران بولنے میں خاموشی سے سوچنے کا دورانیہ آدھہ گھنٹہ اور ایک گھنٹے تک محیط ہوتا تھا۔ ان کا مشہور قول ہے جہاں ہم بول نہیں سکتے اسے خاموشی کے حوالے کرنا چاہئے۔ خاموشی نے کتاب اور قاری ایجاد کی اور بولنے نے آج چیٹیراٹی (chatteratti) کلاس. جو سوچا نہیں گیا اسے بولا بھی نہیں جاسکتا۔ لوڈویگ وٹگنسٹائن جدید فلسفے کا وہ نابغہ ہے جس نے اپنی ساری زندگی 100 صفحوں پر مبنی ایک ہی کتاب “منطقیانہ فلسفیانہ مقالہ” چھاپی تھی۔ اس کا جرمن سے انگلش ترجمہ
Tractus Logicus-Philosophicus
کے نام سے کیا گیا ہے۔ یہ کتاب انھوں نے اس وقت تحریر کی جب وہ پہلی جنگ عظیم کے دوران محاذ جنگ پہ آسٹرو ہنگیرئین فوج میں ایک چوکی پر سنتری کی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا۔ اس دوران وہ گولہ لگنے سے زخمی بھی ہوا۔ سنتری کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ دشمن پہ کڑی نگاہ رکھتا ہے اور ہمیشہ چوکنا رہتا ہے کیونکہ دیگر فوجیوں کو خطرے سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری اس کی ہوتی ہے۔ محاذ جنگ پہ انھوں نے فلسفیانہ نوٹ لکھنے شروع کئے جنھیں بعد میں انھوں نے ترتیب دے کر کتاب ٹریکٹیٹس کی صورت میں چھاپا۔ قرین قیاس یہ ہے کہ وٹگنسٹائن نے محاذ پر سنتری کی وجودی صورتحال کو اپنی فکری صورتحال پر منطبق کرکے ایک ایسی معرکتہ آرا کتاب لکھی کہ اس نے فلسفے کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ وٹگنسٹائن نے تو یہاں تک دعویٰ کردیا کہ فلسفے کے اب تک جو مسائل تھے وہ سارے اس کتاب کے ذریعے حل کر دئیے ہیں۔ اسی لئے وہ آسٹریا میں ویانا سکول یا منطقی ایجابیت کے حامی فلسفیوں اور سائنسدانوں کے مقبول ترین فلسفی بن گئے۔ وٹگنسٹائن نے منطقی ایجابیت سے بعد میں اپنے آپ کو اس لئے دور کردیا کیونکہ وہ ہر چیز کو اپنے کلی کلیے میں محدود کرنا چاہتے تھے اور یوں راسخ العقیدگی میں مبتلا ہوگئے تھے۔
وٹگنسٹائن کا دماغ کتنا منطقی اور واضع طور پہ سوچتا تھا، اس پتلی کتاب کے مختصر جملوں اور ان کی ترتیب سے ظاہر ہوتا ہے۔ آسان اور مختصر جملوں کے آپس میں ربط دکھانے کے لیے وہ جملوں کو نمبروں کے حفظ مراتب میں ترتیب دیتا ہے، اور آخر میں نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ اس نظام میں پہلے نمبر پر ایک بیان ہوتا ہے۔ پھر اس بیان کو بتانے کے لئے ایک آدھ جملہ ہوتا ہے۔ اگر اس سے بھی تصور واضع نہیں ہوتا ہے تو اس نمبر کے ماتحت ایک اور جملہ یا دو جملے ہوتے ہیں۔ یوں کچھ اور ضمنی نمبرات کے بعد آخر میں اس بیان کا منطقی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ یوں اس سوچ کی منطقی ساخت کچھ اس طرح سے بن جاتی ہے؛
1.
1.11
1.12
1.13…
1.2
1.21
2
2.01
اب اس منطقی تقسیم میں 1.11 میں جو بات جس ترتیب سے کہی جارہی ہے، وہ اس سے قطعی طور پر مختلف ہوتی ہے جو 2.01 میں کہی جارہی ہے۔ اس لئے اگر 2.13 میں اگر کوئی بات کہنی ہے تو آپ کو پہلے ان دونوں باتوں کے درمیان (نمبر 2.02 سے 2.12 تک) جو باتیں رھ جاتی ہیں ان کو مکمل کرنا لازمی ہے۔ اگر یہ نہیں کرینگے تو ہم بکواس کررہے ہونگے۔ یہ ایسی منطق ہے جس میں فالو کرینگے تو بامعنی گفتگو کرینگے ورنہ خرابات بولنا شروع کردینے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ وٹگنسٹائن کا کمال ہے کہ انھوں نے ذہن میں وقوع پذیر ہونے والے فکری عمل کو ریاضیاتی منطق کے تحت سمجھایا۔ اس کو وہ حقائق کے ذہن میں تصویر کہتا ہے ۔ ونگنسٹائن اس منطقی ترتیب کو بنانے کی وجہ یہ بتاتا ہے اس سے بامعنی گفتگو اور لایعنی بکواس میں تفریق کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں آج ہم نے بکواس اور بامعنی گفتگو میں تفریق ختم کردیا ہے۔ اسی لئے ہمارے پبلک ڈسکورس غیر معیاری اور واحیات ہوگیا ہے۔ آپ وٹگنسٹائن کے منطقی کلیے کو آزما کر دیکھیں، آپ کی منطقی طور پر سوچنے کی صلاحیت میں نکھار ضرور آجائیگی اور اپنے خاموش رہنے سے پہلے دوبار ضرور سوچیں گے۔ جو خاموش رہنے سے پہلے سوچتا ہے وہ آرام سے بولنے سے پہلے سوچنا کا ہنر سیکھ لیتا ہے۔
وٹگنسٹائن کی کتاب ٹریکٹیٹس کا دیباچہ معروف انگریز فلسفی برٹرینڈ رسل نے تحریر کیا ہے۔ فلسفے کا یہ نابغہ یعنی وٹگنسٹائن اپنی تعیلم ہوا پیمائی کی انجینئرنگ میں برلن اور مانچسٹر کی یونیورسٹوں سے حاصل کی تھی۔ مانچسٹر میں انجینئرنگ کے دوران خالص ریاضیات کی دلچسپی اسے فلسفے کی طرف لے گئی۔ وہ جرمن فلسفی فریج کے منطقی نظام سے بہت متاثر تھا۔ فریج کے کہنے پر وہ فلسفے کے مطالعے کے لئے کیمبرج چلا جاتا ہے، جہاں وہ برٹرینڈ رسل کی شاگردی میں فلسفہ پڑھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طالب علمی کے دوران وہ برٹرینڈرسل کے پاس گیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ انھیں کھرا کھرا بتادے بتا دے کہ آیا ان میں فلسفے پڑھنے کی قابلیت یا رمق ہے یا نہیں۔ اگر اس میں یہ صلاحیت نہیں ہے تو وہ کیمبرج میں اپنا اور رسل کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا ہے۔ رسل نے وٹگنسٹائن کو اپنا لکھا ہوا کوئی مضمون مانگا تاکہ وہ اس کی صلاحیت کا اندازہ لگا سکے۔ وٹگنسٹائن نے فوری طوری پر ایک پیپر جمع کروادیا۔ کہا جاتا ہے کہ رسل نے اس مضمون کے متلعق لکھا کہ اس تحریر میں نابغہ کی ساری خصوصیات موجود ہیں۔ اس کے بعد وٹگنسٹائن نے سوچا بہت زیادہ لیکن لکھا بہت ہی کم، اور چھاپا تو بالکل ہی نہیں۔ وہ تو شکر ہے ان کے شاگردوں کا جنھوں نے ان کے لیکچروں کو ترتیب دیکر ان کی موت کے بعد کچھ کتابیں چھاپیں جن سے ہم اب بھی مستفید ہورہے ہیں۔
مندرجہ بالا سطروں میں وٹگنسٹائن کی حیات اور فکر متعارف کروانے کا مقصد ان کو غلطی سے پاک فلسفے کا دیوتا ثابت کرنا نہیں، بلکہ عصر حاضر کے لئے کچھ سبق حاصل کرنا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل میڈیا کے بولنے اور نظر آنے کے دور میں وٹگنسٹائن سے جو سبق حاصل کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ لازمی نہیں کہ مقدار میں معیار ہو یا اس کے برعکس میعار میں مقدار ہو۔ ایسا ہی مشاہدہ حال ہی میں ڈاکٹر ناصر عباس نئیر نے مشہور لکھاری نوع حراری کی حالیہ شائع شدہ کتاب
“Nexus: A Brief History of Information from the Stone Age to AI”
پر تبصرہ اور حراری کی مقبولیت کا موازنہ بڑے مصنفوں کے ساتھ کیا ہے۔ وہ ایک گہری بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں “بڑے مصنف سراہے زیادہ، پڑھے کم جاتے ہیں۔ سمجھے تو اس سے بھی کم جاتے ہیں.” حراری ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کے پاس افکار کی دنیا کو سلیس زبان اور دلکش پیرائے میں بیان کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ اس لئے وہ نظریہ ساز کم اور مترشح زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہ بھی ایک خوبی ہوتی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں تقریبا مفقود ہوچکی ہے۔ حراری کو مترشح کہنے کا مقصد ان کتابوں کی اہمیت کو کم کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کی غایت یہ بتانا ہے کہ سوچ کتاب کی تخلیق کرتی ہے۔ بہت بولنا شور پیدا کرتا ہے۔ ویسے بھی سنجیدہ سوچنے والے گمنام ہی ہوتے ہیں۔ مگر وہ اس گمنامی کو اپنی سوچ کو مہمیز دینے کے لئے استمعال کرتے ہیں۔ بڑی سوچ جلوت میں تب نمودار ہوتی ہے جب وہ بڑی دیر تک خلوت کی کوکھ میں پلتی ہے۔
آج پاکستان میں پڑھے لکھوں سے پوچھا جائے کہ جارج گڈامر، تامس کوون اور ارنسٹ کسیرر کون ہیں تو بہت کم بتا پائینگے۔ آپ کسی مشہور اینکر ٹی وی یا تجزیہ نگار کا پوچھیں سب کا نام بتائنگے۔ یہ مثالیں جو چیز واضع کررہی وہ یہ ہے کہ لکھے ہوئے لفظ کو اب ویڈیو کا میڈیم شکشت دے رہا ہے۔ اگر آپ گلوکار ہیں تو اب آپ کو اپنی سند ثابت کرنے کے لئے اپنے استاد کے گھرانے کا صدیوں پرانا سجرہ نصب دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بس ایک “بدو بدی” جیسا گانا گا لیں اور راتوں رات پچیس لاکھ فالورز بنا لیں یا وٹگنسٹائن کی طرح سالوں سوچنے کے بعد کچھ جملے بولنے کی بجائے آپ صرف یہ بتائیں کہ آپ کون ہیں اور یہ تمھارے دوست ہیں اور یہاں پھاڑی ہورہی ہے۔ پھر آپ پر چار چاند لگ کر سٹار بن جائینگے۔
اوپر کے سطور میں سوچ و فکر کے متلعق جو کچھ بیان کیا گیا ہے شاید آج غیر متعلقہ لگے یا گئے ہوئے وقت کا نوحہ ہو۔ اور یہ ہو بھی سکتا ہے کہ میری تربیت اس نظام علمیات میں ہوئی ہے جو گٹن برگ انقلاب کی پیداوار تھا۔ اس لئے رونا رو رہا ہوں۔ آج تو ڈیجیٹل انقلاب کا دور ہے۔ اس میں کتاب و فکر کی بات کرنے والا ایسا ڈائنوسار لگے گا جس کی نوع بہت پہلے معدوم ہوچکی ہے۔ دوسری طرف آج انسانی دانش کی جگہ مصنوعی ذہانت زندگی کو ترتیب دے رہی ہے اور یوں انسان کی معدومیت کا سبب بن رہی ہے۔ آپ سب کو مصنوعی اور معدومیت کے دور میں خوش آمدید۔ اس دور میں اس کی بقا ہوگی جو سوچے گا نہیں مگر ساری مصنوعی کیفیات اور ایپس اپنے اوپر طاری کریگا۔ آج کا دور کی یہ تبدیلیاں شاید مابعد الانسان کی ایک مخلوق کی تخلیق کا دیباچہ اور نشانیاں ہیں جس میں مصنوعی ذہن کے لئے کوئی نشانی نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button