یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ جون جولائی کے مہینے میں کھومنے پھرنے کا فیصلہ کیا سال 2024 کے شروع دن میں ہی ہوا تھا وقت گزارتا گیا اور بل اخر ہم جس مقصد کے لیے پلان بنا رہے تھے وہ وقت اگیا ، فیصلہ یہ ہوا کہ ہم تین روزہ ( ۱۹ سے ۲۱ جولائی )سیر وتفریح کے لیے ضلع غزر کے گاوں پھنڈر جائیں گے ، ہم نے اپنی تیاری مکمل کی اور آنے والے کل کا انتظار تھا رات کروٹیں بدلتے رہے لیکن نیند کہاں ؟ اتنے میں سوشل میڈیا کھولا تو دیکھا کہ (این ڈی ایم اے) نے بارشوں اور سیلاب کی پیشنگوئی کی ہے جس کو دیکھ ہر موڑ خراب بھی ہوا ، وہ اس لیے کیوں کہ اگر گھر میں پتہ چلتا تو وہ کبھی جانے کی اجازت نہیں دیتے ، پھر پتہ نہیں کب انکھ لگی اور جب انکھ کھلی تو دیکھا کہ صبح ہو گئی ہے تو ہھر اٹھا ،منہ دویا ناشتہ کیا اور اپنے ساتھ سفر میں درکار ضروری سامنا اپنے بیک میں پیک کیا ، اور تقریباً ۱۰ بجے گھر سے نکل گئے اور دیگر دستوں کا انتظار کیا ، ایک ایک ہو کہ اکھٹے ہونے میں کافی وقت گزرا ، اور یوں کوئی ۱۱ بجے ہم نے اپنے سفر کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ ہم دس دوست تھے جو دو پائیوں والی گاڑیوں پر سورا تھے ۔ گلگت شہر میں گرمی کی لپیٹ میں تھا لیکن جوں ہی بسین سے گزرتے ہوئے ضلع غذر کی طرف بڑھنے لگے ، موسم کافی تبدیل ہوتا محسوس ہوا ، راستے میں بہت ہی خوبصورت اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے منزل کی ظرف جوش و خروش سے بٹھ رہے تھے جس کی وجہ سے تھکن کا احساس ہی نہیں ہورا تھا ، اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہم ۱.۳۰ پہ گاکوچ پہنچے وہاں ہوٹل میں کھانا کھایا ، گاکوچ کا موسم بہت حسین تھا ، گلگت میں تپتی دوپ گاکوچ میں کالے بادلوں میں تبدیل ہوچکا تھا جس سے لطف اندوز بھی ہورہے تھے جبکہ دل ہی دل میں (این ڈی ایم اے) کا نوٹیفکیشن بھی جھلک رہا تھا ، خیر ہم نے اللہ کا نام لے کر اپنا سفر دوبارہ آغاز کیا ، گوپس پہنچ کر ہم نے اشیاء خوردونوش خریدا اور یوں یاسین کی ظرف سڑک کو ہاتھ ہلاتے ہوئے تحصیل پھنڈر کی طرف چل پرے ، سڑک کافی خراب تھا جوکہ غزر ایکسپریس وے کے کام وجہ سے خراب تھا ، ایک اہم بات میں نے اس ایکسپریس وے کو بناتے دیکھتے ہوئے محسوس کیا ، پہاڑ میں سرنگ بہت خطرناک حد تک کیا ہے شائد بارود کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے پہاڑ نیچے سے اوپر تک بہت کمزور ہوئے ہوئے ہیں اور مستقبل قریب میں شاہراہ بلتستان سے کچھ کم نظر نہیں اتا ، جو تھوڑی بارش یا زلزلہ بھی برداشت نہیں کر سکے گا ، جو کہ انسانی جانوں کے لیے موت کے فرشتے سے کم نہیں ہوگا۔ خدا کرئے میری پیشینگوئی اور اندازہ غلط ہو ۔
پھنڈر کی ظرف یہ میرا پہلا سفر تھا ، جوں ہی خلتی جھیل ہر نظر پڑی تو بے ساختہ منہ سے سبحان اللہ نکلا ۔ واقع ہی ضلع غذر خاص کر خالتی پھنڈر کو اللہ تعالیٰ نے جنت سے کم نہیں بنایا ہے ۔ یوں آہستہ آہستہ خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جب ہم پھنڈر پہنچے تو شام کے 8 بج گئے پھر شام کی ٹھنڈی ہوا کھانے کے بعد 9 بجے سینٹر پھنڈر سے اگے روانہ ہوئے اور ہندرب کی طرف اپنا رخ موڑ دیا اور ہندرب کی خاموشی اور چاند کی چاندنی اس سفر کو مزید چار چاند لگا رہے تھے ، اتنے سفر کے بعد بھی ہمیں تھکن تک محسوس نہیں ہوا ، ہندرب گاوں سے گزرتے ہوئے ہم ہندراپ نالے کی طرف پیش قدمی کی جوں جوں ہم نالے کے اندر گئے موسم نے اپنا رنگ دیکھانا شروع کیا کالے بادل اور ہلکی بارش کی اپنی خوبصورتی ہے ، نالے کی سڑک انتہائی خراب کافی جگہوں پر ہم پیدل چلے ، یقین کریں ایسے سفر کا اپنا مزہ ہے ، ہلکی بارش کالے بادل ہمارے دوست اگر نکل چکے تھے اور میرے ساتھ جو ہمسفر تھا وہ مجھ سے پیچھے رہ چکا تھا میں پیدل تھا اور وہ دو پائیوں کی گاڑی پر ، مجھے اگے دوست نظر ارہے تھے لیکن اواز نہیں سکتا تھا وہ بہت آگے جارہے تھے جبکہ پیچھے رہ جانے والا نظر تک نہیں آرہا تھا ، پھر میں ایک جگہ کھڑا ہوا ، آس پاس کوئی نہیں سوائے نانے کا پانی بہہ رہا تھا ۔
میں نے اس پانچ سے دس منٹ کی تنہائی میں پراسرار آوز سنی ، میرے کانوں میں خواتین کی آہستہ سے باتیں کرنی کی آواز سنائی دی ، تو میں نے غور سے سنا تو سمجھ کچھ نہیں آیا میں نے خود کو حوصلہ دیا کہ یہ میرا وہم ہے ، میں خود کو ڈرا رہا ہوں خود کو جھنجوڑا لیکن ہھر سے وہی آوزیں سنائی دی ، میں پھر خود کو حوصلہ دیتا رہا کہ بھائی یہ آپ ہی کا وہم ہے ، ایسا ویسا کچھ نہیں ۔ اتنے میں میرا ہمسفر جو مجھ سے پیچھے رہ چکا تھا وہ آیا تو میں نے یہ واقع اس کو سنایا ، اور میں نے اس کو خاموش کرتے ہوئے کہا خاموش رہو میں نے ہھر کوشش کی کہ شائد وہ آواز پھر سے سنائی دے لیکن نہیں ، دو سے تین بار کان لگا سننے کی کوشش کی کچھ سنائی نہیں دیا ، ہھر دوست نے کہا ، یہ ہو بھی سکتا ہے کیوں کہ گاؤں میں ایسا ہوتا ہے اور کہا یہ اپ کا وہم بھی ہو سکتا ہے ، یہ باتیں کرتے ہوئے ہم بھی اگے بڑھے کوئی آدھا گھنٹہ دو پائیوں پر جانے کے بعد پیدل 1 گھنٹے کا سفر باقی تھا ، ہم چلتے رہے راستے میں تھکن کی وجہ سے پتھروں پر آرام کی نیت سے بیٹھ گئے ، آپ ذرا محسوس کریں کہ رات 1 بجے ہوں آپ اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل سفر ہثر ہوں اور ساتھ بارش ہو رہی ہو ۔ پھر انسان اپنی تمام مسائل وہ پریشانیوں کو چھوڑ کر ان لمحات کو انجوائے کرتا ہے جو کہ کرنا بھی چاہئے کیوں کہ ایسا وقت پھر کبھی نہیں اتا ۔
رات ۱.۳۰ پر ہم اپنے رست بسر کرنے والی جگہ ہر پہنچ گئے اور ہم نے ٹینٹ لگایا اور اور کھانا بنا کر کھانے میں صبح 3 بج گئے اور ہم سوگئے صبح ۵ بجے اٹھے اور مچھلیوں کے شکار کے لیے نکل گئے اور بدقسمتی سے مجھ سے ایک بھی شکار نہیں ہوا ، دوستوں نے کچھ شکار کیا اور یوں دن بھی مچھلیوں کے پیچھے وقت گزر گیا اور رات کو سو گئے اور اگلی صبح 8 بجے ہم نے اپنا سامان لیا اور وآپس نکل گئے ، سنٹر پھنڈر میں سمیع کے گھر میں کھانے کا بندوست تھا ، کھانا کھا کر ہم آرام آرام سے گلگت کی ظرف نکل گئے اور رات دس بجے گلگت پہنچ گئے ، گلگت جس طرح پہنچ ہیں وہ ہمیں پتہ ہے ، جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں تھا جو درد نہیں ہورہا تھا ۔
خیر سفر بہت ہی زبردست اور بہت ہی یادگار رہا ، سب نے بہت انجوائے کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیر و خیرات سے ہم وآپس پہنچ گئے ۔ لیکن وہ پراسرار آوازیں آج بھی اپنے پیچھے سوال چھوڑ گئے کہ وہ حقیقت تھا یا وہم جس کا جواب میرے پاس بھی نہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین ثم آمین ۔