ماسٹر عافیت خان ابنِ اکبر خان ابنِ قدیر خان کا شمار وادی ہونز کے ان اولین زندہ چراغوں میں ہوتا ہے جن کی تعلیمی روشنی سے بیسویں صدی کے اوائل میں صدیوں سے چھائی ہوئی ناخواندگی کی تاریکی کو سمیٹنے اور نئی نسل کے دل و دماغ کو منور کرنے کی ابتدا ہوئی، ۱۹۴۶ میں ڈائمنڈ جوبلی اسکولوں کے قیام نے ایک شعوری تحریک کی صورت اختیار کر کے وادی میں تعلیمی انقلاب کی بنیاد ڈالی، آج یہاں بوائز اور گرلز پرائمری اسکولوں، ڈگری کالجز اور قراقرم یونیورسٹی کیمپس کی صورت میں علم و شعور کے مراکز کا ایک وسیع جال بچھا ہوا ہے، جناب عافیت خان ۱۶ جنوری ۱۹۱۶ اور ایک دوسری روایت کے مطابق ۲ مئی ۱۹۲۱ کو بلعت کے مقام پر ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے، اُس وقت بلعت ریاست ہونزا کا صدر مقام، انصاف یا نا انصافی کے فیصلوں کی مرکزی عدالت گاہ، در بار کی صورت میں ریاست بھر کے اکابرین کے فہم و فراست اور دور اندیشی کی امتحان گاہ نیز سیاسی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں اور تہواروں کی خوشیوں کا مرکز تھا، ونزا میں ہر چیز میٹر تھی مگر درس گاہ، معلم اور طالب علم کے وجود کا کوئی نام و نشان نہیں تھا، مذہبی فرائض کی ادائیگی اور واجبات کے حصول لئے اخوند وخلیفہ حضرات کی ایک قلیل تعداد تھی، اس کے علاوہ کسی فرد کو ریاست کے اندر یا باہر تعلیم پانے اور خط و کتابت کرنے کی اجازت نہیں تھی، ریاست کا سارا نظام، عوام کی ہنر مندی، بہادری کی داستانوں سے بھر پور عسکری ڈھانچہ، اور زراعت باغبانی کی مہارتوں پر مبنی بلند عمارت عوام کی جفاکشی، روایتی ذہانت اور دانائی کی روشن اقدار کے مضبوط استونوں پر استوار تھی، یہ بنیاد اس قدر پختہ اور دلکش تھی کہ سابق پولیٹیکل ایجنٹ گلگت کرنل لاریمر کی اہلیہ نے جو ماہر تعلیم تھیں ۱۹۳۰ کے آس پاس اپنے خاوند کے ساتھ ہونزا میں قیام کے بعد ایک تجزیہ میں کہا ہے کہ انگلینڈ کے مہنگے نظام تعلیم اور طلبا کی نسبت تعلیم سے محروم ہونزا کی عوام کی روایتی ذہانت اور ہنر مندی کہیں بہتر ہے،، ۱۸۹۲ کی جنگ آزادی میں ہونز کا نظم و نسق سنبھالنے کے اکیس سال بعد انگریز حکام نے ایک تاریخی قدم اٹھایا اور اس علاقہ کو ناخواندگی کی تاریکی سے نکال کر شعور کی روشنی میں لانے کے لئے ۱۹۱۲ میں بلحت کے مقام پر ایک پرائمری اسکول کا قیام عمل میں لایا، عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام بنیادی طور پر چین اور روس کی سرحد تک اسٹریٹیجک رسائی کی رکاوٹوں کو دور کرنے اور اس سلسلے میں عوام کا دل جیتنے کے لئے اٹھایا گیا تھا، دیکھا جائے تو یہ درسگاہ مقامی معلمین کی عدم دستیابی کی وجہ سے ناخواندگی کی تاریکی مٹانے کی تگ و دو میں ایک ایسی مثال تھی جیسے کوئی چڑیا نار نمرود کو بجھانے کے لئے اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لئے پہنچ گیا ہو، انگریز حکام نے سیال کوٹ سے عبد العزیز نامی مہربان شخص کو لا کر اس درسگاہ کے لئے پہلا معلم مقرر کیا، بلعت پرائمری اسکول تاریخی لحاظ سے ہونزا کے تمام تعلیمی اداروں کا اُم المدارس کہلانے کا بجاطور پر حقدار ہے، اس سلسلے میں فیڈرل گورنمنٹ ماڈل بوائز ہائی اسکول کریم آباد کی جانب سے اس تاریخی درسگاہ کی تاسیس کی صد سالہ تقریبات کا اہتمام خوش آئند ہے، اس درسگاہ کے اولین اساتذہ کی تقرری اور خدمات کی ترتیب یہ ہے، عبدالعزیز، ایک کشمیری شخص، وزیر عنایت اللہ بیگ، میرزادہ فنی خان، جناب محمد نجات (گنش) اور تیغون خان (گلگتی)، اس سلسلے میں دیگر اہم معلومات کے بارے میں تاریخ اور سینہ گزٹ دونوں خاموش ہیں، یہ عجیب اہتمام تھا کہ قدرت مقامی اور مستقل اساتذہ کی دستیابی کے لئے در پردہ عافیت خان اور گنش سے اسکند خان بر چہ ابن محمد نبی کو پروان چڑھا رہی تھی،عافیت خان کو ۱۹۲۶ میں اس اسکول میں داخلہ ملا تو راجہ غنی خان معلمی کے فرائض انجام دے رہے تھے، چنانچہ آپ نے ۱۹۳۱ میں اُن کی سر پرستی میں نہ صرف پرائمری پاس کیا بلکہ خوش قسمتی سے آپ کو مڈل سطح کی تعلیم کے لئے گلگت کا ویزہ“ بھی مل گیا، ویزہ اس معنی میں کہ شخصی حکومت کے اس زمانے میں ہر کسی کو ریاست سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی اس کے لئے راہداری کے نام سے چٹھی ملتی تھی جس کی چیکنگ (امیگریشن) چھلت نگر سے قبل بزم چھر (سفید پہاڑ) نامی گزرگاہ پر ہوتی تھی، اور یوں آپ ۱۹۳۴ میں گلگت سے مڈل پاس کرنے والے چند خوش نصیبوں میں شامل ہو گئے، اس زمانے میں برٹش اسکاؤٹس میں بھرتی ہو کر روزگار حاصل کرنا اور انگریزی وردی میں ملبوس ہونا ایک بڑا سماجی اعزاز سمجھا جاتا تھا، آپ نے دوڑ، فٹ بال، والی بال اور دیگر کھیلوں میں سرگرمی سے حصہ لے کر بڑا نام کمایا تھا، چنانچہ آپ چاہتے تھے کہ ایک چست و توانا اور تعلیم یافتہ نوجوان کی حیثیت سے یا تو گلگت اسکاؤٹس میں بھرتی ہو جائیں یا مزید تعلیم کے لئے سری نگر جائیں، مگر میں نظیم خان نے بھرتی ہونے یا سری نگر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے اجازت دینے سے انکار کیا اور یہ حکم صادر کیا کہ عافیت خان گوجال میں اپنے والد گرامی اکبر خان اور دادا قدیر خان کے ساتھ عوام سے میلین (ٹیکس) کے حصول میں مدد دے اور ایک معاون کے طور پر حسابات کی نگرانی کرے، چنا نچہ آپ چھ سات سال اسی غیر تعلیمی سر گرمی سے وابستہ رہے مگر آپ کو اس کام سے اطمینان اس لئے حاصل نہ ہوا کہ آپ تعلیمی خدمت کے خواہاں تھے، یہ سچ ہے کہ تعلیم اور علم کی روشنی پھیلانا انبیا و اولیا کا میراث ہی نہیں بلکہ عملی عبادت بھی ہے، اس کی برکات نسل در نسل جاری رہتی ہیں، ۱۹۴۰ کا سال آپ اور آپ کے خاندان کے لئے مبارک ثابت ہوا کہ آپ اس مادر علمی میں جو ریاست کے لئے جنت اقرا کی مثال تھی معلم بن گئے، آپ نے اس موقع کو غنیمت جان کر اللہ کی دی ہوئی تعلیم و شعور کی روشنی سے نئی نسل کے قلوب کو منور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، آپ کی تدریسی خدمات چونتیس (۳۴) سالوں پر محیط رہیں، اس طویل عرصہ کے دوران آپ کی لسان قلم اور عدہ تربیت سے سینکڑوں طلبا تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے، یہ طلبا پاکستان آرمی میں ترقی پا کر بریگیڈئر اور جنرل کے عہدوں تک پہنچ گئے اور سول بیروکریسی کے اہم مراتب پر فائز رہے، ۱۹۶۹ میں تدریسی خدمات کی تحمیل پر آپ رسماً سبکدوش ہوئے مگر بقیہ زندگی کے دوران بھی علاقے کے طلبا و طالبات کو حصول تعلیم کے لئے اور والدین کو عمدہ تربیت کے لئے ابھارتے رہے، آپ ۲۰۰۴ میں ۸۸ سال کی عمر پا کر اس دنیائے فانی سے دار البقا کی جانب کوچ کر گئے، ہونزا کے قدیم اساتذہ کو حقیقت میں جدید ہونزا کے معمار ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہ بلعت، گنش، الست، گوجال اور بنی (ناصر آباد۔ شنا کی) کے قدیم تہذیبی خمیر سے پیدا ہوئے اور ان اسکولوں سے پروان چڑھ کر شرق و غرب میں علم و حکمت، شعر و شاعری، ہنر مندی، بہادری،مہمان نوازی، خوش اخلاقی، ملک و ملت کی وفاداری اور احترام آدمیت (انسانیت) کے حوالے سے ہونڑا کو بین الاقوامی سطح پر ایک جداگانہ پہچان دے گئے، ہونز ا شروع سے پانی، زرخیز زمین اور جنگلات کی کمی کا شکار رہا ہے مگر اللہ نے کمال مہربانی سے اس پسماندگی کے بطن سے وہاں کے لوگوں کے لئے علم و حکمت کی روشنی، ہنر مندی، ہجرت برائے روزگار، جفا کشی اور دیانتداری کی توفیقات پر مبنی معنوی جواہرات برآمد کیا، اس تعلیمی شعور نے ہونزا کو پاکستان کے دیہی علاقوں کی شرح خواندگی میں اول پوزیشن حاصل کرنے میں مدد دی، جناب عافیت خان کے فرزند ارجمند جناب شاہ عالم نے ایک روایت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ہونزا کے قدیم حکمران ہری تھم خان کے وزیر ملک ہونزا کے علاوہ نگر پر بھی وزیر تھے، بہری تھم خان نے اس زمانے میں نگر کو فتح کر کے وہاں سات سال تک حکومت کی،۱۷۹۰ میں میرسلیم خان ثانی نے بدخشان میں جلاوطنی سے واپس آکر اپنے بڑے بھائی میر غونی مرزہ کو قتل کروایا اور مسند امارت سنبھال لیا تو اُس وقت در سلی ابن بلن اُن کے بالترتیب چار وزرا میں سے دوسرا معتمد خاص وزیر تھے، مذکورہ بالا دونوں وزیروں کا تعلق قبیلہ پٹو قیمت (پٹو محمد) سے تھا، اس زمانے میں حکمرانوں کو زہر دے کر قتل کرنے کا رواج عام تھا، چنانچہ میر سلیم نے وزیر در سلی پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اُن کے بھتیجے حیدر علی کو زہر دینے کی سازشوں پر نظر رکھنے کی حساس ذمہ داری سونپی کہ کوئی اُس کے کھانے میں زہر نہ ملائے، اس خاندان کے علی مراد میر غزن خان اول کے معتمد خاص تھے، اس کے بعد اُن کے بیٹے قدیر خان پھر اُن کے بیٹے اکبر خان اور اُن کے فرزند عافیت خان بھی ریاست کے خاتمے (۱۹۷۴) تک گوجال میں ٹیلین کی وصولی اور دیگر ذمہ داریوں پر مامورر ہے، جناب شاہ عالم نے ایف جی کریم آباد بوائز ہائی اسکول سے وابستہ رہ کر سینکڑوں طلبا کی شخصیت سازی، کردار سازی اور کیریئر کی رہنمائی کرتے رہے، ہونز اسے آپ کے علاوہ میر غضنفر علی، برگیڈ تر حسام اللہ بیگ، بھنے ہو، بہرام خان، میجر ظفر جنگ اور داور شاہ کو ساٹھ کی دہائی میں گورڈن کالج راولپنڈی جیسے باوقار مادر علمی سے تعلیم پانے کا اعزاز حاصل ہوا، اس کالج کو گورڈن نامی انگریز شخص نے ۱۸۷۲ میں قائم کیا تھا، شروع میں اس درسگاہ کی کلاسیں کمیٹی چوک کے چرچ میں مشنری تعلیمی منصوبوں کے تحت شروع کی گئیں تھیں، اس کالج کے ہونزائی طلبا خوبصورت پینٹ شرٹ پہن کر گرمیوں کی تعطیلات میں ہونزا آتے تو دیگر طلبا انھیں دیکھ کر بڑی حسرت سے کہتے کاش کہ اُن کے والدین کے پاس بھی مالی وسائل ہوتے تو وہ بھی اس درسگاہ میں تعلیم پا کر عزت کماتے، ویلچیز ٹورز نے ہونزا کے لئے ٹورزم انڈسٹری کا دروازہ کھولا تو مقامی لوگوں کے لئے نہ صرف روزگار کے مواقع میٹر آئے بلکہ مغربی سیاحوں سے فارن ایکسچینج کی صورت میں سیم وزر (سونا چاندی کی طرح دولت) کی درآمد شروع ہوگئی، یہ اعزاز بلعت کے جناب حورشاہ ابن نیت شاہ کو حاصل ہے کہ انھوں نے اُس ابتدائی دور میں گریجویٹ سینئر گائیڈ کی حیثیت سے انگریزی بول چال کی مہارت کے ساتھ مغربی سیاحوں کی عمدگی کے ساتھ نہ صرف رہنمائی کی بلکہ ہونزا کے تہذیبی و ثقافتی ورثے سے انھیں خوب متعارف بھی کرایا، شاہ عالم بڑی نیکنامی کے ساتھ تدریسی خدمات بجالانے اور جان و دل سے کمیونٹی کی رضا کارانہ خدمات انجام دینے کے بعد آج کل ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہے ہیں، اللہ نے آپ کو نیک اولاد کی نعمت سے نوازا ہے، ان میں سے کمشنر بلتستان نجیب عالم، سماجی خدمت گار شکیل عالم اور دیدار عالم ہیں جن کو خدمت خلق کا انمول موقع ملا ہے اس میں کامیابی کا راز دیانتداری اور انکساری میں مضمر ہے۔