آج کے کالمز

گلگت بلتستان میں پراکسی وار اور آزاد دانشور

امیرجان حقانی

گلگت بلتستان کے مختلف مسلکی و مذہبی مجاہدین کو یہاں کی مذہبی و سیاسی اور ان دیکھی قوتیں مختلف شکلوں اور رفاہی ناموں سے تربیتی پروگراموں میں پراکسی وار اور لڑائی کا شعور دیتی ہیں۔ انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ خدا کی اس مقدس زمین(جی بی) پر خدا کا نظام نافذ کرنے کے نام پر مسلکی توسیع پسند عزائم کو پورا کرنے کے لئے دامے، درمے، قدمے، سخنے کام کریں۔ ان کی مختلف مدوں میں مدد بھی کی جاتی ہے۔ اس مدد کی شکلیں بھی کئی طرح کی ہیں۔
یہ واضح ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان میں بھی مسلکی اور جغرافیائی مفادات کے تحت پراکسی جنگ کی آگ بھڑکائی گئی ہے۔ مقامی عوام کی مشکلات اور مسائل کو نظر انداز کرکے انہیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلکی و مذہبی ترجمان نما دانشور تو باقاعدہ پراکسی وار کا حصہ ہیں تاہم آزاد دانشوروں کو اس حقیقت کو بیان کرنے میں ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے۔ ان معدودے دانشوروں کی بھی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں ان میں ایک بڑی مجبوری خود ان کا کسی خاص مسلک سے جڑا رہنا ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کو اپنے حقوق اور شناخت کے لئے خود کھڑا ہونا ہوگا اور اس نام نہاد مقدس پراکسی وار کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ موجودہ صورتحال میں، گلگت بلتستان کے عوام کو اپنی ترقی اور خوشحالی کے لئے ایک متحد اور مضبوط آواز بلند کرنا ہوگی تاکہ انہیں مختلف طاقتوں کے مفادات کی بھینٹ نہ چڑھایا جا سکے۔ غیر مرئی پراکسی وار کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے اجتماعی شعور اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
اس خطے کے باسیوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جب تک وہ اپنی شناخت اور حقوق کے لئے ایک آواز ہو کر کھڑے نہیں ہوں گے، ان کی مشکلات کا حل ممکن نہیں ہوگا۔ اجتماعی شعور اور متحدہ کوششوں سے ہی گلگت بلتستان کو اس جنگ کی آگ سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button