رجعت قہقری کے لغوی معنی ہیں الٹے قدموں پھرنے کا عمل۔ لیکن اصطلاح میں کسی شئے یا طریقے یا نظریہ و نظام کا الٹی طرف پلٹنا۔ تاریخ کی ایک زیادہ معقول اور مقبول عام تعریف یہ ہے کہ تاریخ کا عمل آگے کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ نہ پیچھے کی جانب رخ کرتا ہے، نہ ساکت و جامد رہتا ہے اور نہ دائرہ بناتا ہے۔تاریخ کا عمل ایک کائناتی اصول کے تحت صرف آگے کی طرف حرکت کرتا ہے جس طرح بندوق کی گولی سیدھے آگے کی طرف نکل جاتی ہے اور اپنے ہدف کو نشانہ بناتی ہے۔
تاریخ کے کئی شعبوں میں سے ایک سیاسیات کا شعبہ بھی ہے۔ اس کی ابتداء و ارتقاء کی تاریخ بہت پرانی ہے اور صدیوں بلکہ ہزاریوں پر محیط ہے۔تہذیب و تمدن کے آغاز سے اب تک سیاست اور اس کے نظام میں کئی تبدیلیاں آئیں اور اس میں تغیر و تبدل کا عمل جاری رہا ہے۔ روئے زمین پر انسان اپنی دنیا کو آباد رکھنے اور اپنی زندگی کو پر آسائش و پر وقار بنانے کے لئے ہمہ وقت کوشش کرتا رہتا ہے۔
جب انسان نے ہوش سنبھالا تو اسے معاشرتی زندگی کا احساس ہونے لگا۔ پھر اس احساس و شعور نے اسے خاندان اور قبیلے یا جماعت کی تشکیل کا راستہ دکھایا۔ اس سماجی زندگی کی شروعات کے ساتھ فرد اور جماعت/ قبیلے کے درمیان تعلقات اور ان کے مابین حقوق و فرائض کا تعین اہم تھا۔ پھر فرد اور جماعت کے مابین ان تعلقات کے تعین اور ان کے قیام و انصرام کے لئے اختیارات (authorities)کا ایک نظام تشکیل پایا۔ اس طرح جب اختیار اور جماعت (authority and community)کا سماجی تصور منصہ شہود پہ آیا تو یہی تصور سیاست و ریاست کی صورت گری کرنے لگا۔ گویا اس تصور کی تشکیل سیاست گری اور حکومت و ریاست سازی کی شروعات تھی۔
جماعت اور اختیار کے اس تصور نے امیر جماعت یا سردار قبیلہ کی اصطلاح وضع کی۔امیر جماعت یا سردار قبیلہ کے پاس اختیار ہوتا تھا کہ وہ اپنی جماعت یا قبیلے کے جملہ امور، خواہ وہ سیاسی ہوں یا سماجی، معاشی ہوں یا قانونی،کے متعلق فیصلے کرے۔لیکن جب انسانی معاشرے میں ایک سے زیادہ جماعتیں یا قبیلے بنے تو ان جماعتوں یا قبیلوں کے امراء یا سرداروں نے مل کر ایک وسیع تر سیاسی و سماج نظام کی تشکیل کی جسے ریاست کا نام دیا گیا۔اب ریاست بننے کے بعد مختلف جماعتوں کے امراء اور سرداران قبائل اس ریاست کے ارکان بن گئے اور ایک ممتاز شخص کو پوری ریاست کا سربراہ بنایا گیا جو اس کا نظم و نسق چلانے کا مجاز ہوتا تھا۔ جب انسانی آبادی بڑھی یا مختلف ریاستیں آپس میں مربوط ہوئیں تو اب چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ضرورت پڑی کہ وہ اپنے وسیع تر مفاد میں ایک بڑی مملکت یا سلطنت (Empire) یا بادشاہت (Kingdom) کو تشکیل دے۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں سلطنت یا بادشاہت کا تصور ابھرا اور دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں اور بادشاہتیں قائم ہوئیں جن کے سربراہوں کو بالترتیب سلطان اور بادشاہ کہا گیا۔ دنیا کی معلوم تاریخ میں صدیوں بلکہ ہزاریوں تک بادشاہی نظام مروج رہا۔یہ بادشاہ مطلق العنان ہوتے تھے اور بادشاہت کا یہ منصب موروثی طور پر، یعنی باپ سے بیٹے میں اور بیٹے سے پوتے میں یا کسی قریبی رشتے دار کو منتقل ہوتا تھا۔
مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ نظام سیاست و حکومت میں تبدیلیاں بھی رو نما ہوئیں۔ چنانچہ بادشاہ کی مطلق العنانی اور آمرانہ پالیسیوں سے بیزار ہو کر چند ایسے ممتاز افراد کو حق حکمرانی سونپا گیا جو علم و عقل، عدل و انصاف اور تدبیر مملکت میں دوسروں سے زیادہ اہلیت و افضلیت کے حامل تھے۔ اسی مخصوص و ممتاز گروہ کی حکومت کو اشرافی یا اعیانی یا مقتدر طبقے کی حکومت (Aristocratic government) کہا گیا۔
گذرتے ایام کے ساتھ مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں حضرت انسان اس نتیجے پر پہنچا کہ بادشاہت، سلطنت اور اشرافی حکومت میں بھی بے شمار نقائص موجود ہیں۔ چنانچہ، انسان نے ان مذکورہ نظاموں سے زیادہ عمدہ، زیادہ جدید، معقول،انسان پرور، عوام دوست اور فلاح و بہبود کا حامل نظام ”جمہوریت” کو تخلیق کیا۔ جماعت نے اختیار کا بار گراں بادشاہت سے اٹھا کر جمہوریت کو سونپا جس میں اختیار و اقتدار کا منبع و مصدر عوام ہوتی ہے۔جمہوریت در اصل انگریزی زبان کے لفظ Democracy کا قریب ترین ترجمہ ہے جس کے مقبول عام معنی ہوتے ہیں لوگوں کی حکومت (Rule of people)۔ تاہم، اس کی بڑی حد تک واضح تعریف سابق امریکی صدر ابراہیم لنکن نے کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ:
Government of the people by the people for the
یعنی ” عوام کی حاکمیت عوام کے ذریعے عوام پر” people
اگرچہ جمہوریت کی تاریخ بہت پرانی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کا نفاذ شروع میں یونان میں ہوا اور بعد میں دیگر ملکوں میں بھی اس کے نفاذ کے شواہد ملتے ہیں۔لیکن تاریخی لحاظ سے جمہوریت کا باقاعدہ آغاز اٹھارھویں صدی عیسوی کے آخری سالوں سے مغربی یورپ میں ہوا۔ یہ نظام سیاست اپنی بے پناہ خوبیوں کے باعث بہت جلد پورے یورپ اور امریکہ سمیت ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا میں بھی مقبول ہوا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں صدیوں ہزاریوں سے مروج بادشاہت و مطلق العنانی کی جگہ جمہوریت نے لے لی۔ تب اس کی برکتوں سے اہل دنیا مستفید ہوئے اور قلیل وقت میں انسانی تہذیب و تمدن، عقل و دانش اور بالخصوصں سائنس اور ٹیکنالوجی نے اس کے زیر سایہ ترقی کی منزلیں برق رفتاری سے طے کیں اور اسی جمہوریت کی بدولت انسان آج کے انتہائی ترقی یافتہ دور میں داخل ہوا۔
ہزاروں سال کا سفر طے کرنے کے بعد جمہوریت نے موجودہ شکل اختیار کی ہے۔ جدید دور میں علم پر مبنی جمہوریت کا تصور سامنے آیا ہے جو معقولیت اور انسان دوستی کے عناصر سے مملو ہے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ قانون سازی اور فیصلے اس اصول سے کئے جائیں کہ اختلاف کرنے والے تمام عناصر کق قائل کیا جائے کہ وہ ان فیصلوں کا ساتھ دیں، یا اختلافات کو کم سے کم کرنے کے لئے درمیانی راستے نکالیں جائیں۔ تاہم،ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی فیصلے سے اتفاق یا اختلاف علم و استدلال اور معروضیت (objectiv) کی بنیاد پر ہو۔
اس میں شک نہیں کہ جمہوری نظام میں بھی شاید نقائص موجود ہیں کیونکہ یہ نظام انسانوں نے بنایا ہے جس کی اصلاح و درستی کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ جمہوریت تیسری دنیا میں 40 فی صد ناکام ہے۔ غالباً اس ناکامی کی کا سبب تیسری دنیا میں ناخوندگی، غربت، معاشی ناہمواری، سماجی انصاف کا فقدان، اقتدار کی ہوس، آمریت، عسکریت پسندی اور جاگیردارانہ ذہنیت وغیرہ ہے۔
ہمارے ملک پاکستان کی ریاست کی اساس بھی جمہوریت پر ہی قائم ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جمہوریت کو مسلمانوں کے لئے بالعموم اور پاکستان کے لئے بالخصوص لازمی قرار دیا ہے۔ انہوں نے 13 دسمبر 1946 کو کنگز وے ہال لندن میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”جمہوریت مسلمانوں کے خون میں ہے۔ مسلمان مکمل انسانی مساوات، رواداری اور آزادی میں یقین رکھتے ہیں۔“
ماضی میں ہمارے ملک میں بھی جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا جس کے سبب نہ صرف کئی بار ا س کی بساط ہی لپیٹ گئی بلکہ یہ اپنی موجودگی میں بھی ملک کی عوام کو خاطر خواہ سود مند ثابت نہ ہو سکی۔ اس نظام کو قابل عمل بنانے اور اس کے ثمرات کو عوام تک قابل رسا بنانے کے لئے اس میں اصلاحات کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر عرصہ دراز سے اہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے متناسب نمائندگی کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ ایک باشعور اور پڑھے لکھے شہری کی دانست میں متناصب نمائندگی کے مطالبے میں معقولیت دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ دنیا کے اکثر ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ متناسب نمائندگی کا نظام زیادہ جمہوری ہے، اس میں قوم کی خواہش اور جماعتوں کی معاشرے میں حمایت زیادہ واضح انداز میں سامنے آتی ہے۔ اس نظام کی مقبولیت اور معقولیت کا یہ عالم ہے کہ آج دنیا کے بہت سے ممالک، جن میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں شامل ہیں، میں یہ نظام رائج ہے۔ متناسب نمائندگی کا یہ نظام ہمارے ملک اور خطے کے لئے بھی زیادہ موزوں دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ پاکستان اور خاص طور پر ہمارا خطہ گلگت-بلتستان سماجی و ثقافتی، نسلی و لسانی اور دینی و مسلکی اعتبار سے تکثیریت اور گوناگونی کا حامل ہے۔ ایسے میں متناصب نمائندگی کے اصول پر عمل در آمد کے نتیجے میں اکثریت اور اقلیت دونوں کو متناسب نمائندگی مل سکتی ہے اور اس طرح عوام کے اکثریتی گروہ بھی مطمئن ہو سکتا ہے اور اقلیتی گروہوں کی مایوسیوں اور محرومیوں کا بھی ازالہ ہوسکتا ہے۔ نیز یہ کہ وسائل کی تقسیم کاری سے ریاستی وسائل سے بڑی حد تک عوام کے تمام طبقے مستفید ہو سکتے ہیں۔
الغرض، جمہوریت ملک اور علاقے بلکہ پوری عالمی دنیا کے لئے بلا شرکت غیرے ایک آبرومندانہ سیاسی و سماجی نظام کی حیثیت رکھتی ہے۔ البتہ اس کو درست طور پر سمجھنے، وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اس میں اصلاح و ترمیم کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ نیز اس سے بھی اچھا نظام لانے کے دروازے بند نہیں ہیں۔ جیساکہ آج کل دور مابعد جدیدیت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ آنے والا دور علم پر مبنی معاشرے (knowledge society) کو تشکیل دے گا جس میں معاشرے کا ہر فیصلہ علمیت اور اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر ہوگا۔ ایسے میں علم و دانش، سائنس و ٹیکنالوجی، تعقل و تفکر اور ذاتی اہلیت و صلاحیت اس علم پر مبنی معاشرے کا محور و مرکز ہوگی۔ ایسی صورت میں انسانی زندگی کے قریب قریب تمام پہلوؤں پر اہلیت و قابلیت کا راج ہوگا۔تب بڑی بڑی سلطنتوں، بادشاہتوں، نیز عدلیہ، انتظامیہ اور دفاع کے عظیم الشان اداروں کے قیام کی چنداں ضرورت نہ ہوگی بلکہ با علم اور باشعور لوگ اپنے علم و دانش، اپنی مہارت، اخلاقی قوت اور معاشی و سماجی انصاف کو رو بہ عمل لا کر اپنی معاشرتی زندگی کے مسائل کا آبرومندانہ حل تلاش کریں گے۔ نیز یہ کہ مسائل حیات ان کے گھر کی دہلیز پر ہی حل ہوں گے۔ اس طرح سول سوسائیٹی کا بول بالا ہوگا۔
لہٰذا، پورے یقین و اطمینان کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کی چند قابل اصلاح پہلوؤں کو مسئلہ لا ینحل بنا کر اس کا سرے سے خاتمہ کر کے گذشتہ زمانوں کے، ظالمانہ و جابرانہ اور فرسودہ و از کار رفتہ نظاموں کو دوبارہ نافذ کرنے کا خیال ایک غیر معقول، غیر فطری اور غیر تاریخی عمل ثابت ہوگا۔ اس لحاظ سے، اب نہ مغل سلطنت بحال ہو سکتی ہے اور نہ ریاست ہنزہ۔ اور اگرچہ رحمت اللعالمینی تعلیمات تاریخ کے کسی بھی دور میں اور کسی بھی انسانی معاشرے کے لئے قابل عمل ہیں، تاہم، اب نہ طیب اردگان والی عثمانی خلافت قائم ہو سکتی ہے اور نہ عمران خان والی ریاست مدینہ کے قیام و انصرام کا کوئی امکان موجود ہے۔ کیونکہ تاریخ کا عمل رجعت کا شکار نہ ہوگا بلکہ زمانہ اور تاریخ کا عمل آگے بڑھے گا اور علم پر مبنی معاشرے میں انسان زیادہ صحتمند سماجی زندگی گزارے گا اور بجا طور پر اپنے لئے نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کرے گا۔ من حیث المجموع رجعت و پسماندگی کی اصطلاح زمانہ آئندہ کی ڈکشنری میں نہ ہوگی۔ پس، اس بنیاد پر یہ کہنا بجا ہے کہ انسانی تاریخ، اور خاص طور پر سیاسی تاریخ، میں رجعت قہقری کی گنجائش نہیں ہے۔