گلگت بلتستان میں خود فراموشی کے متعلق مضامین کے سلسلے کی پہلی قسط میں یہ کوشش کی گئی تھی کہ گلگت بلتستان میں خود فراموشی کے عوامل اور وجوہات کو واضع کرسکیں۔ کچھ قارئین نے مشورہ دیا کہ اختصار سے کام لینے کی بجائے تفصیل اور ٹھوس مثالیں فراہم کی جائیں۔ موجودہ مضمون میں محترم قارئین کی تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش کی جائیگی کہ گلگت بلتستان کے سیاسی تناظر میں ان معروضی عوامل کا جائزہ لیں جو ایک خاص قسم کی موضوعیت کو جنم دیتے ہیں اور یہی موضوعیت کس طرح ایک خاص قسم کی نفسیات پیدا کرتی ہے۔ یہ سماجی نفسیات پھر ایک زبان بناتی ہے جو لوگوں کو دنیا کی تفہیم کے لیے بنیادی سانچہ مہیا کرتی ہے۔ اس سانچے کے خدوخال مخصوص حالات کے اندر تشکیل پاتے ہیں۔ مختصر الفاظ ہماری سماجی نفسیات، رویے اور زبان ہمارے معروض سے جنم لیتے ہیں۔ اس مضمون میں صرف گلگت بلتستان کے معروض میں سماجی نفسیات کی تشکیل کا جائزہ لیا جائیگا۔
گلگت بلتستان کے لوگ جن معروضی حالات میں رھ رہے ہیں اس کو علم بشریات کی زبان میں ذات کی گمنامی کا نام دے سکتے ہیں۔ یعنی لاکھوں لوگ ہیں جن کے پاس جسمانی چہرے تو ہیں مگر سماجی و سیاسی چہرہ نہیں ہے۔ انسان بغیر شناخت کے سماجی و سیاسی زندگی جی نہیں سکتا۔ شناخت ایک خالصتا انسانی معاملہ ہے جو حیوان کو درپیش نہیں ہوتا۔ اگر اس ہونے اور نہ ہونے کی کشمکش کو سلجھایا نہیں گیا تو انسان شیکسپئر کے کردار ہیملٹ جو ہے یا نہیں ہے کے معمے میں پھنس جاتا ہے پاگل ہوجاتا ہے۔ غالب کو بھی اس ہونے نہ ہونے کی بحش نے ہی ڈبویا تھا۔ ہست و نیست و شناخت کا سوال انسانی سماج میں بھی ابھرتا ہے۔ اگر یہ الجھن دیر تک لاینحل رہتا ہے تو سماج کو پاگل پنے میں مبتلا کردیتا ہے۔ انسانی سماج کے دیوانہ پن کے سوتے معروضی حالات سے ہی پھوٹتے ہیں۔
ارسطو انسان کو سماجی حیوان کا نام اس لیے دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے حیاتیاتی چہرے پہ ایک سماجی شناخت قائم کرتا یا کرتی ہے۔ یہی شناخت ہی ہے جس کی بنیاد پر عمرانی معاہدے اور سماجی اداروں کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ مگر گلگت بلتستان کے موجودہ نظام کو جس کلیئے پر قائم کیا گیا ہے اس کا مقصد ہی لوگوں کو گمنامی میں رکھنا ہے۔ اس لیے گلگت بلتستان کسی عمرانی معاہدے کا وجود نظر نہیں آتا۔ ایسا معاشرہ جو بغیر عمرانی معاہدے کے وجود رکھتا ہے، وہ اپنا آپ بننے کے علاؤہ سب کچھ بننے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہے جس ادارے کو آج اسمبلی کہا جاتا ہے اس نے انیس سو ستر کی دھائی سے اب تک کتنے نام اور حلئیے بدل لئے ہیں۔ یہ ادارہ ہر چیز بن رہا ہے سوائے بااختیار اسمبلی کے۔ چونکہ گمنام سماج کا اپنا کوئی چہرہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ ہر قسم کا نقاب اوڑھنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً وہ سماج ایسی نفسیاتی بیماریوں اور سماجی رویوں کو جنم دیتا ہے جو کسی نارمل سماج کا خاصہ نہیں ہوتے۔ مختصر الفاظ میں ایسا سماجی و سیاسی شناخت کے ساتھ ساتھ اپنا عقل و شعور کھو کر ایک ایسا بلا بن جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے ہی بچوں کو کھانا شروع کردیتا ہے۔ یہ ایک طرح کی نفسیاتی آدم خوری ہی ہوتی ہے۔ اور گلگت بلتستان کے لیے آدم خوری نئی چیز نہیں ہے۔
چونکہ گلگت بلتستان کا قومی سوال یکم نومبر کی آزادی اور اس کے فوراً بعد پاکستان میں شمولیت کے فیصلے سے شروع ہوتا ہے، اسی لیے اس وقت کے رہنماؤں کی ذہنی کیفیت کا جائزہ لینا لازمی ہے۔ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بانیوں کے پاس ڈوگروں سے آزادی کا تصور تھا، مگر اس آزادی سے کیا کرنا تھا اس کا ان کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ کیا کرنا سے مطلب یہ کہ اگر ریاست یا پاکستان کا حصہ بننا تھا تو اس کے خدوخال، حقوق اور اختیارات کیا ہونگے۔ کس طرح سماج ہوگا۔ بلکہ سماجی سوال تو ان میں سرے سے غائب ہے۔ چونکہ جنگ آزادی کے سارے رہنما فوجی تھے اس لیے ان کے پاس سیاسی و سماجی جوابات یا حل نہیں تھا، صرف فوجی حل ہی تھا۔
آزادی کی ایسی کیفیت جس میں سماج کو پتہ نہیں ہوتا کہ آزادی سے کیا کرنا ہے بہت خطرناک ہوتی ہے۔ معروف جرمن فلسفی ایرک فرام نے جدید زمانے میں تشدد نے نفسیات پر گرانقدد کتابیں لکھی ہیں۔ وہ جدید زمانے میں یورپ کے عالمی اور دیگر جنگوں کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ یورپ کو کلیسا اور بادشاہت کی استبدادیت سے نجات حاصل کرنے کی وجہ معلوم تھی، مگر اس آزادی سے کیا کرنا تھا اس کے متعلق غافل تھے۔ نپولن، ہٹلر، لیوپارڈ، ہٹلر، میسولینی، اسٹالن وغیرہ اسی مخمصے کے پیداوار ہیں۔
اس کی وجہ سے ہی کہا جاسکتا ہے کہ بغیر بصیرت کی آزادی ہمیں بلاؤں کے ہاتھ حوالہ کرتی ہے۔ آج گلگت بلتستان کے اوپر جو گزر رہی ہے وہ ان بے بصیرت رہنماؤں کی بدولت ہے جنھوں نے پرانی غلامی کے طوق سے نجات حاصل کرکے ایک ایک دوسری غلامی میں قید کرلیا۔ یہ صرف گارڈز کی ہی تبدیلی تھی۔ اب ستر دھائیوں بعد صورتحال یہ ہے کہ قیدی بھی ہم ہی ہیں اور جیل کی رکھوالی پر معمور گارڈز بھی ہم ہی ہیں۔
حضرت عیسٰی نے اپنے ہمسائے سے محبت کرنے کو کہا تھا۔ اب یہاں گلگت بلتستان میں ایسی نفسیات و اخلاقیات نے جنم لیا ہے جو ہمیں قید کرنے والے گارڈز سے محبت کروا رہے ہیں۔ پچھلے ستر سالوں میں گلگت بلتستان کی بے شناخت وجودی کیفیت نے محکومی کی ایسی نفسیات تشکیل دی ہے جو ہماری زندگی کے حتی کہ موضوعی کیفیات تک بھی اثر انداز ہورہی ہے۔
ہم طاقت کے بڑے بڑے مظاہر کی بجائے زمروزمرہ زندگی کے تجربات و واقعات پر توجہ مرکوز کرکے طاقت کے محرکات اور اثرات آپ کے سامنے لانے کی کوشش کرینگے۔ گلگت بلتستان میں اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہماری محبت میں بھی طاقت داخل ہوگئی ہے۔ حالانکہ محبت ایک انتہائی موضوعی اور ذاتی عمل ہوتا ہے لیکن طاقت نے اس کو بھی کرپٹ کر دیا ہے اور مطلق طاقت نے مکمل کرپٹ کردیا ہے۔ ذرا اس شینا شعر کو غور سے پڑھئے:
میئے ہیئیے ایوانئیئ تو وزیر اعظم ہنے،
مئیے گا نوم لکھار جیک بیئے کابینائیئے وزیرور نے۔
ترجمہ: تم میرے دل کے ایوان کی وزیراعظم ہو،
کیا ہوگا اگر تم میرا نام اپنی کابینہ کر وزیروں میں لکھوا دو۔
یہ اشعار بطور شینا شاعری کے نمونے کے طور پر باقاعدہ باقاعدہ طور پر انیس سو ننانوے میں اکیڈمی ادبیات سے شینا زبان و ادب پر چھپی ایک کتاب میں شامل ہیں۔ آپ یہاں باآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ محبوب کا دل لیلی کی طرح خالص نہیں رہا۔ اب طاقت ہمارے اندر اتنی در آگئی ہے کہ دل کہ نہاں خانوں تک بھی قبضہ کرلیا ہے۔ پہلے عاشق اپنے محبوب کے دل کی جنت میں پہنچا چاہتا تھا، مگر اب دل کے ایوان میں وزیر بننا چاہتا ہے۔ وہ دن قصہ پارینہ ہوگئے جب عشاق محبوب سے التجا کرتے تھے کہ:
“مئیئ نوم گہ ہنا کون تھئیئ یارو مجھا (پتہ نہیں میرا نام بھی تمھارے چاہنے والوں میں ہے کہ نہیں).
جب عشاق کا یہ حال ہے تو گلگت بلتستان کے سیاستدانوں سے کیا گلہ کہ وہ ایوانوں کی نشستوں، وزارتوں اور مشیروں کے عہدوں کے بھوکے ہیں۔ بدبخت طاقت کی پوجا نے ہم سے عشق کرنے کی صلاحیت تک بھی چھین لی ہے۔ اب ہم تو اچھی طرح عشق بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ اور جس سماج عشق کرنے کی صلاحیت نہ ہو، وہ صرف نفرت کو ہی اپنے اندر پروان چڑھا سکتا ہے۔ ہم نفرت کے مظاہر کو اپنے سماج میں روزمرہ کی زندگی میں سامنا کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی گلیاں اور دل و جان و روح محبت کے لیے ترس گئے ہیں۔ اب گلی میں کسی کے ساتھ غلطی میں ٹکر ہو جاتی ہے تو معزرت کی بجائے مالیئ جے۔۔۔ سنے کو ملتی ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے معروضی حالات نے ایک نئی نفسیات کی تشکیل کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ نئی نفسیاتی بیماریوں اور کیفیات کو بھی جنم دیتے ہیں اور یہ نفسیات ایک نئی زبان اور زبان نئی حقیقت کو جنم دیتی ہے۔ وہ کیفیات کون سی ہیں اور زبان کون سی ہیں۔ ہم آنے والے سطور میں ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم نفسیاتی بیماریوں و کیفیات کا ذکر کرینگے۔
جب ہماری باہر کی دنیا ہمیں شناخت سے محروم کر دیتی ہے اور ایک اپنا نقاب ہمارے اوپر چڑھانے کی کوشش کرتی ہے تو ہم اندر و باہر کی شخصیت کے درمیان الجھ جاتے ہیں۔ اس عمل میں ہوتا یہ ہے کہ روح الگ ہوتی ہے مگر باہر کا چہرہ جدا ہوتا ہے۔ یہ کشمکش ہماری شخصیت میں ایک تشویش کو جنم دیتی ہے۔ سماج میں بالکل یہی عمل کار فرما ہوتا ہے۔ اگر نقاب زیادہ دیر تک ہمارے اندر کی ذات پر حاوی رہتا ہے تو آہستہ آہستہ وہ اپنا داخل یا اندر کی ذات کھو دیتا ہے اور تھونپے گئے نقاب کو اپنی پہچان سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ تشویش ایک حد تک مفید بھی ہوتی ہے کیونکہ یہ ہمیں اپنے ذات کی تلاش کے لیے مہمیز مہیا کرتی ہے۔ اگر یہ تشویش بے قابو ہو جائے تو یہ یاس/حزن یا انتہائی دکھ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یوں ہمیں ذہنی طور پر اپاہج کر دیتی ہے۔
تشویش میں مبتلا سماج کو کچھ بھی نہیں سوجتا ہے اور خود فراموشی کے عالم میں وہ ہر اس چیز کو گلے لگانے کی کوشش کرتا ہے جو اسی بظاہر طاقت یا شناخت عطا کرتا ہے۔ لیکن اس یہ ساری چیزیں مستعار پہ لیے ہوئے نقاب ہوتے ہیں جو اس سماج کو اس کی ذات سے دور کرکے ایک غیر ذات کے نے بنائے ہوتے ہیں تاکہ سماج کے افراد اپنی ذات کو غیر ذات کے حوالے کریں۔ سماج نقابوں کے شکنجے میں اس لیے پھنسا ہے کہ وہ اپنی وجودی حقیقت کو معروضی طور پر پرکھنے کی بجائے اپنی موضوعی احساس سے ڈھانپ کر اپنے ایک التباس، مغالطہ یا مصنوعی حقیقت کو جنم دیتا ہے اور کسی ایسے خیال کو قریب آنے نہیں دیتا ہے جو اس کی خیالی دنیا کا خاتمہ کرے۔ ہمیں گلگت بلتستان میں رائج نظام کے متعلق پتہ ہے کہ اس کو ہمیں ہر سطح پر مطیع رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن ہم نے اختیار کا جھوٹا ملمع اس ننگی حقیقت کے اوپر چڑھایا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بادی النظر میں ہمارے پاس اسمبلی ہے اور اس کو چلانے کے سارے طریقے کار وہی ہیں جو دنیا کے کسی بھی جمہوری نظام میں موجود ہوتے ہیں مگر کیا یہ واقعی اسمبلی ہے؟ نہیں یہ مشابہہ الفاظ کا ایک ملمع ہے جس نے اندر کچھ نہیں ہے۔ (جاری ہے)
ہم اگلی قسط میں کوشش کرینگے کہ ان عوامل اور محرکات کا جائزہ لیں میں سماج میں یاسیت، بیگانگی اور خودکشی کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کی آرا اور سماج سے مثالیں, ہماری سماجی نفسیات کے محرکات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہونگے