قراقرم بورڈ کو بحال کرنا ہے تو گلگت بلتستان بورڈ کے طور پر کیا جائے، کاظم میثم
گلگت(وطین نیوز) اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ قراقرم بورڈ کو بحال کرنا ہے تو گلگت بلتستان بورڈ کے طور پرکریں۔یونیورسٹی کے مالی مسائل حل کرنے کیلئے بورڈ کو بحال کرنے کی منطق مضحکہ خیز ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا ہے کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت متبادل اقدام اٹھائیں۔قراقرم یونیورسٹی ہو یا بلتستان یونیورسٹی دونوں اہم اثاثہ ہے۔ ان کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔جو جو حکومتی ممبران یا آفیسرزسرکاری اداروں کو فیڈرل بورڈسے الحاق ختم کر کے قراقرم بورڈ کے ساتھ الحاق کے لیے راضی ہیں وہ پہلے اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجیں اس کے بعد تقریریں کریں۔
اپنی اولادوں کی ٹیسٹنگ فیڈرل بورڈ سے ہو جبکہ عوام کے بچوں کو کمائی کا ذریعہ سمجھیں یہ سوچ ہی مناسب نہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں صرف غریب عوام کے بچے ہیں اور عوام کے ووٹ سے آنے والوں کا مزاج اشرافیہ کا نہیں بلکہ عوامانہ ہونا چاہیے۔سرکاری سکولوں کو زبردستی الحاق کی کوشش کرے تو بھرپورعوامی ردعمل آئے گا۔
سکولوں کی تعلیم کے معیار سے عوام مطمئن نہیں تو کیسے بورڈ کی ٹیسٹنگ سے عوام مطمئن ہوں گے۔اسوقت دنیا تعلیمی جانچ کیلیے مصنوعی کا استعمال کر رہی ہے۔ امتحانات کے نتائج گھنٹوں میں ملتے ہیں تعلیم، تعلیمی جانچ اور پیمائش کے ٹرینڈز یکسر بدل چکے ہیں۔لیکن ہم ابھی تک لارڈ میکالے کے نظام کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بلکہ اس صدی میں بھی بچے ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں اور ایک ایک کمرہ میں تین تین کلاسیں ہوتی ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ نئی نسل کو عالمی تعلیمی اداروں کے ساتھ منسلک کرنے کی بات کرے۔ نہ کہ زبردستی مرضی کے بورڈ میں غریبوں کو تھوپیں۔ اداروں کو انکی مرضی پہ چھوڑیں کہ کس نے کس بورڈ میں پیپر دینا ہے۔اگر بورڈ کا معیار اچھا ہوا تو کسی اجلاس کی ضرورت نہیں ہوگی یورپ امریکہ سے بھی بچے آکے پیپر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں طبقاتی نظام کا خاتمہ اصل میں اشرافیوں کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ ملک کے اسی فی صد وسائل پر ایک فی صد اشرافیہ قابض ہے یہ اشرافیہ تمام طبقات سے مربوط ہے پورا نظام اسی ایک فیصد کے گرد گھومتا ہے۔ ان کے لیے تعلیم کا نظام بھی الگ ہے اور دیگر سہولتیں بھی۔
یہ قانون ساز بھی اور قانون کی اطلاق کرنے والے ہوتے ہیں چنانچہ کبھی عوامی حکومت اور نظام کو درست ہونے نہیں دیں گے۔ گلگت بلتستان واحد خطہ تھا جہاں طبقات میں فاصلہ نہیں تھا اب یہ فاصلہ بھی مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔